کالم

کس کی موت کا انتظار ہے؟

اکتوبر 15, 2018 7 min

کس کی موت کا انتظار ہے؟

Reading Time: 7 minutes

[تحریر میں دو لوگوں کے نام بدل کر لکھے گئے ہیں ۔ باقی ایک ایکٹیوسٹ کا نام اس لیئے لکھا گیا ہے کہ کہانی میں آپ کو کوئی ابہام نہ ہو ۔ گزارش یہ ہے کہ تحریر کچھ طویل ہے، مگر اہم بھی ہے ۔ براہ کرم مکمل پڑھئے گا ۔ لکھاری]

پاکستان میں متحرک ہم جنس پرستی اور ہیومن رائٹس تنظیموں کی چھتری تلے کام کرنے والے کچھ سماجی کارکنان کی سرگرمیوں کا انکشاف مجھ پر کچھ دن پہلے  ہوا ۔ پچھلے سارے عرصے میں خاموش رہا اور اس ملک کے قانون کے احترام میں، اور ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے ایک لفظ نہیں بولا ۔ لیکن اب اپنا فرض سمجھ کر تمام حقائق قارئین تک پہنچانا چاہتا ہوں ۔

آج سے تقریباً دو ڈھائی ماہ پہلے میری فیسبک پر احد سے دوستی ہوئی ۔ احد کی عمر بائیس سال ہے اور وہ لاہور کی ایک یونیورسٹی طالب علم ہے ۔ ایک انتہائی بہترین دماغ رکھنے والا انٹلیکچول اور اتنی کم عمری میں اتنا علم رکھنے والا میرے لئے بہت احترام کے قابل تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ میں اور احد چند ہی روز میں بہت قریب آ گئے. فیسبک اور واٹس ایپ پر باتیں کرنا معمول بن چکا تھا . انہی دنوں بڑی عید کی تیاریاں چل رہیں تھیں. عید آئی, دوسرے ہی دن میں لاہور نکل گیا. وہاں میری احد سے دو سے تین ملاقاتیں ہوئیں.

ایک شب واٹس ایپ پر احد نے مجھے بتایا کہ وہ بہت اپ سیٹ ہے اور وجہ پوچھنے پر اس نے بیزاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بات ٹالنے کی کوشش کی. بہرحال بات بتادی ۔ اس تمام رات مجھے کسی کی تکلیف بھری کہانی جان کر اپنے سارے دکھ درد بھول گئے ۔

احد نے بتایا کہ وہ دوسال سے ایک انتہائی اذیت ناک صورتحال سے دوچار ہے. مزید بات کھُلی تو علم ہوا کہ وہ دانش نام کا ایک اور لڑکا ہے جو اسی کی جامعہ میں پڑھتا ہے، دوسال قبل اس کی دانش سے ملاقات ہوئی اور وہ ایک ایسے عمل سے گزرے جس کو بہرحال ہمارا معاشرہ قبول نہیں کرتا ۔

احد کے مطابق اس کو دانش سے دوستی کئے ہوئے دو ماہ ہی ہوئے تھے کہ اس کی طرف سے انجان حرکتیں شروع ہوگئیں، وہ ایسے کہ دانش کے مطابق وہ اور احد اب شریک حیات جیسے رشتے میں بندھ چکے تھے اور اب احد کا کسی بھی دوست سے ملنا دانش کو ایک آنکھ نا بھاتا تھا. اس کو عام الفاط میں حق ملکیت کا احساس بھی کہتے ہیں .

دانش نے مزید اسپیس حاصل کی اور فیسبک اور دیگر ذرائع سے احد کے دوستوں اور قریب کے رشتہ داروں سے رابطے استوار کرلیئے. اس کو احد کے گھر کے پتے سمیت تمام وہ انفارمیشن مل چکی تھی جس کا علم صرف بہت ہی قریب کے لوگوں کو ہوسکتا ہے. وہ احد سے محبت کا اظہار تو کرتا ہی رہتا تھا مگر اب وہ احد کو ایک بند رشتے میں آنے کو فورس کر رہا تھا. احد نے اس کو بتایا کہ وہ کسی اور کے ساتھ پہلے سے ہی ریلیشن میں ہے جس پر اب احد اور دانش کے بیچ لڑائیاں ہونے لگیں .

انہی لڑائیوں میں شدت آئی تو احد کو دھمکی دی گئی کہ اس کی وہ ساری باتیں وہ سوشل میڈیا پر لیک کردے گا. اور یونہی ہوا . دانش نے ایک فیک اکاؤنٹ بنایا، جس میں احد کے دوستوں اور رشتہ داروں کو ایڈ کیا اور اس سے سب کو اپنے اور احد کے مابین پرائیویٹ باتوں کے اسکرین شاٹس بھیجے جس کا پتہ احد کو اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے سامنے شرمندگی اٹھانے سے چلا .

جی ہاں یہ وہی شخص ہے جو ایک 20 سالہ نوجوان کو ایک رشتے میں دھکیلنے کی غرض سے یہ سب کر رہا ہے. اب سے دوسال قبل احد بیس کا ہی تو تھا. اگلے مرحلے میں دانش نے احد کے دوستوں کے فیک اکاؤنٹس بنائے اور ان کی کردار کشی کرکے احد کے دوستوں کو اس سے دور کرنے کی سازش کی جو کامیاب بھی ٹھہری. یہی نہیں دانش نے ایک گے ڈیٹنگ ایپ ‘گرائینڈرٰ پر احد اور اس کے دوستوں کی پروفائلز بنا کر ان کے نمبر اور گھروں کے پتے لوگوں میں بانٹنے شروع کر دیئے. یاد رہے یہ وہ باتیں ہیں جن کے ثبوت تحقیقات میں مدد کے لئے جمع کروائے جا چکے ہیں. احد کو اس دن احساس ہوا کہ دانش سے دوستی اس کی کتنی بڑی حماقت تھی. احد مزید نقصان کے ڈر اور خوف میں مبتلا ہو گیا.

احد کے مطابق یہ وہی دور تھا جب اس پر زندگی کی سب سے بڑی قیامت ٹوٹی. احد کی والدہ کا انتقال احد کو توڑ کے رکھ دینے والا حادثہ ثابت ہوا. ماں کے جانے کے بعد تو کوئی بھی شخص ویسا نہیں رہتا جیسا وہ اس سے پہلے ہوتا ہے. وہ ایک دم اکیلا ہو گیا اور اب اس میں کچھ بھی سہنے کی سکت نہیں تھی. اس کی زندگی میں ایک خاموشی سی طاری ہوگئی.

نیم زندہ انسان سے اور کیا توقع رکھی جائے کہ وہ مسلسل ذہنی ٹارچر اور اتنے دکھ درد کے بعد بھی یہ کہتا کہ چلو کوئی بات نہیں.

جس رات میری احد سے بات ہورہی تھی وہ یہ فیصلہ کر چکا تھا کہ وہ اپنی جان لینے جا رہا ہے, مگر اس کو بھی زندہ نہیں چھوڑنا چاہتا. یہ سن کر میں نے اس سے کچھ مہلت مانگی اور کہا کہ اس کے علاہ بھی ہمارے پاس ایک راستہ ہے مگر اس کے لیئے مجھے اس سب کے ثبوت درکار ہیں. اگلے ہی روز احد نے وہ تمام ثبوت مجھے دکھائے جس کے بعد ہم نے تمام ثبوتوں کے ساتھ ایف آئی اے سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا. جس دن میں اس معاملے میں پڑا، مجھے بھی براہ راست مختلف طریقوں سے نشانہ بنایا جاتا رہا.

رات کے تین بج رہے تھے کہ احد کا میسج آیا کہ میں بہت مشکل میں ہوں. دانش نشہ کرکے اس رات احد کے گھر کے باہر بیٹھا بار بار گھر کی گھنٹی بجا کر گھر والوں کو یہ کہہ رہا تھا کہ احد کہاں ہے، اس کو باہر بھیجیں. ساتھ ہی وہ احد کو میسجز کرکے ٹارچر کر رہا تھا کہ وہ باہر نہ آیا تو وہ شور مچا کر گھر والوں اور محلے والوں سب کو اس کی حقیقت بتا دے گا. احد اس رات گھر پر نہیں تھا، وہ کہیں باہر بیٹھا ٹارچر کا شکار ہو رہا تھا جس کے ری ایکشن میں اس وقت ہم کسی پولیس کو طلب نہیں کرسکتے تھے . اس سے پہلے ایک بار پولیس سے مدد مانگی گئی مگر انہوں نے غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہماری بات ٹال دی . کوئی راستہ نہ بچا تو مجھے براہ راست میسج کرکے یہ کہنا پڑا کہ مانیٹر کیا جارہا ہے. حرکتوں سے باز آجاؤ نہیں تو اتھارٹیز ایکشن لے لیں گی. وہ باز پھر بھی نہیں آیا. صبح کی ہلکی ہلکی روشنی میں احد جب گھر گیا تو دانش وہاں سے جا چکا تھا. میں نے بھی سکون کا سانس لیا اور سوگیا. صبح اٹھتے ہی میرے موبائل پر ڈھیروں کالز, میسنجر پر پچیس تیس پیغام اور نوٹیفیکیشنز آئے ہوئے تھے. دانش ٹھہرا کی بورڈ وارئیر, اس کو صرف آن لائین لڑائی لڑنی آتی ہے. اس نے میرے میسج, نمبر اور فیسبک اکاؤنٹ کے اسکرین شاٹس مختلف گروپوں میں اس تحریر کے ساتھ پوسٹ کردیئے کہ ڈیلی ٹائمز میں لکھنے والا یہ صحافی رات گئے مجھے دھمکی دے رہا تھا. صحافی اپنی طاقت کا استعمال اس طرح کر رہے ہیں. میں اس کے خلاف ایکشن لینے جارہا ہوں.

مجھ میرے دوستوں کی جانب سے اس معاملے میں نہ پڑنے کا دباؤ بڑھ گیا. دراصل بات یہ تھی کہ احد آج تک اکیلا اس  ظلم کا سامنا کرتا آ رہا تھا جس میں دانش کے دوست اور بھائی اس کے ساتھ کھڑے تھے. جب انہیں یہ علم ہوا کہ احد کے ساتھ بھی کوئی شخص کھڑا ہے جو ان سب کے لئے مشکل بن سکتا ہے تو دوسری جانب دانش کو تحفظ دینے کے لیئے ایک پورا گینگ بن گیا. جس کی سربراہی کراچی کا ایک بڑا نام, ہیومن ایکٹیوسٹ, خود ساختہ جرنسلٹ خان کر رہے تھے.

مجھے راستے سے ہٹانے کا پلان تشکیل پا چکا تھا. ابھی ہم نے ایف آئی اے کا رُخ نہیں کیا تھا, مگر ان تمام کو ڈر تھا کہ میں نے جو کہا ہے میں اس سے پیچھے نہیں ہٹوں گا. مجھے ایک رات اسلام آباد کسی ضروری کام سے جانا پڑا. راستے میں مجھے یہ خبر ملتی ہے کہ دانش نامی شخص نے سلمان درانی نامی صحافی کے دھمکی آمیز میسج کے بعد ذہنی پریشر کے سبب اپنی نبض کاٹ کر خودکشی کر لی ہے. اس وقت مجھے تشویش ہوئی مگر بعد میں پتہ چلا کہ یہ سب ڈرامہ ہے ۔

خودکُشی کی خبر کو محمد سلمان خان نے کچھ ایسے بریک کیا کہ ان کے ایک فیملی فرینڈ نے ایک صحافی کی دھمکی کے بعد خودکشی کرلی ہے. اس کی موت کی تصدیق اسکی فیملی نے کردی ہے. لہذا اسکی موت کا ذمہ دار سلمان درانی ہے. خان نے میری پروفائل کی اور نمبر, میسجز کی اسکرین شاٹس بھی لگائے. یہ تمام تر ڈرامہ خود کو صحافی اور خود ساختہ ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ کہنے والا شخص اپنی فیسبک پر رچا رہا ہے. کس لیئے؟ کیونکہ اس کو اپنے دوست کے جُرم کو چھپانا اور مجھے پریشرائز کرنا تھا کہ معاملے سے دور ہوجاؤں.

مجھے اس جھوٹی خبر, جس کا تخلیق کار خان تھا, کے پھیلنے کے بعد بہت لعن طعن کا سامنا کرنا پڑا. مگر چونکہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا تھا, میرے حوصلے نہیں ٹوٹے اور میں ان کے خلاف مزید ڈٹ گیا. ایف آئی اے کے عہدیداروں کو میں نے وہ میسج بھی دکھایا جو میں نے دانش کو ہٹانے کے لیئے کیا تھا. دلچسپ بات یہ کہ جس درخواست میں صرف دانش کو ہونا تھا, اس میں اس کے بھائی اور خصوصاً سلمان خان کا نام سرفہرست ہے.

جس دن درخواست داخل کی گئی اس رات ایک اور کارڈ کھیلا گیا جس میں یہ مشہور ہوگیا کہ ہم نے سلمان خان, دانش اور ان کے دوستوں پر بلاسفیمی کا الزام لگایا ہے. اس بات کو ختم ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگی, کیونکہ جھوٹ کے واقعی میں پاؤں نہیں ہوتے. ہم نے ہیومن رائٹس پاکستان, ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن اور اپنے ان تمام دوستوں کو بھی درخواست نمبر اور درخواست کی کاپی ارسال کردی جو اس کیس میں ہمارے مددگار ہیں.

یہاں یہ بات الگ کرنے کی ضرورت ہے کہ زیر غور معاملہ ہراسمنٹ, دھمکیوں, ڈیفیمیشن، ذہنی تشدد سمیت ان تمام جرائم سے متعلق ہے. اس میں ان دوستوں کو ڈرنے کی قطعاً ضرورت نہیں جو یہ کہہ رہے ہیں کہ گے سیکس پاکستان میں جرم ہے. اس سے احد بھی گھیراؤ میں آسکتا ہے. میرے خیال میں ایسا نہیں ہوگا, ہم اس معاملے میں احد کے ساتھ کھڑے ہیں, ان مجرموں اور ان کے جرائم سے توجہ نہیں ہٹائی جاسکتی جس کے مرتکب یہ لوگ ہوئے.

ہیومن رائیٹس کسی شخص کی گھر کی لونڈی نہیں ہے. نہ ہی اس کو غلط کاموں کے لیئے استعمال ہونے دیا جاسکتا ہے. ان دوستوں کا شکر گزار ہوں جو ہر لمحہ ساتھ کھڑے رہے. لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری درخواست پر عمل اب تک نہیں ہو پایا جس کا فائدہ ملزمان کو ہوا. انہوں نے ہمیں کمزور جان کر براہ راست حملے شروع کر دیئے ہیں.

کچھ دن پہلے احد کو لاہور میں اغوا کر لیا گیا تھا. نشہ آور ادویات کھلا کر جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ، ناکامی پر جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا. احد وہاں سے بھاگنے میں ہر چند کامیاب ہوا.

اس معاملے میں احد کے گھر والوں نے ایف آئی آر کے لیئے تھانے کا رُخ کیا مگر پرچہ درج نہ ہوا. اس کے لیئے احد نے اپنی میڈیکل رپورٹ بھی پیش کی جس پر کان بھی نا دھرے گئے. شائید ان کو جنسی تشدد کے شواہد درکار تھے. تو کیا ہمارا سسٹم اس قدر خرابی کا شکار ہے کہ ایک شخص کو تحفظ چاہیے, اس کو مزید عدم تحفظ کا احساس دلایا جا رہا ہے. میری اپنے اداروں اور انسانی حقوق کے تمام کارکنان سے درخواست ہے کہ براہ کرم فیسبک اور ٹویٹر کی ایکٹیوزم سے نکل کر عملی طور پر کسی کا ساتھ دینا چاہتے ہیں تو اس کیس کو بھی دیکھ لیں ۔

نوٹ: اس موضوع پر دیگر تحریروں اور نکتہ نظر کو بھی خوش آمدید کہا جائے گا ۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے