کالم

فواد کی سسکیاں اورشہبازشریف کی سزا

اکتوبر 23, 2018 6 min

فواد کی سسکیاں اورشہبازشریف کی سزا

Reading Time: 6 minutes

اعزازسید / سیاسی افق

فواد حسن فواد زاروقطار روتے ہوئے ہچکیاں لے رہے تھےاورسابق وزیراعلی ا پنجا ب شہباز شریف انہیں دلاسا دے رہے تھے جبکہنیب کی تین رکنی ٹیم یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔ یہ سب کچھ ۲۰اگست کو ڈی جی نیب لاہور کے دفتر میں چل رہا تھا جہاں شہباز شریف اور فواد حسن فواد کو براون رنگ کے بڑے بڑے صوفوں پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے بٹھایا گیا تھا۔

فوادحسن فواد مسلم لیگ ن کی سابق حکومت کے طاقتورترین افسر تھے۔ وہ سال ۲۰۰۸ سے۲۰۱۳ کے دوران مسلم لیگ ن کی صوبائی حکومت میں شہباز شریف کے ساتھ مختلف حیثیتوں میں کام کرچکے تھے۔ شہباز ان کی تعریفیں کرتے نہ تھکتے اور یہی وجہ تھی کہ جب ۲۰۱۳میں ن لیگ اقتدار میں آئی تو نوازشریف اپنے بھائی کی تعریفوں کی وجہ سے ہی فواد حسن کو اسلام آباد اپنے ساتھ لے آئے جہاں وہ ان کے ساتھ سائے کی طرح رہے۔ فواد کی شریف برادران سے قربت اور طاقت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ن لیگ کے وزرا ہوں یا بیوروکریسی سب ان کے اشارہ ابرو کے منتظر رہتے۔ ایک دفعہنوازشریف کے داماد کیپٹن رئٹائرڈ صفدران کی بے جا طاقت سے تنگ آکر قومی اسمبلی میں بھی بولے مگر فواد حسن فواد کا بال بھی بیکا نہ ہوسکا۔ طاقتوروزیراعظم نے پرنسپل سیکرٹری کو داماد پر فوقیت دی۔

مگر اب حالات بدل چکے تھے۔ فواد حسن فواد ۵ جولائی سے نیب لاہور کی حراست میں تھے۔ ان پر شہباز شریف کے دور میں شروع کی گئی آشیانہ ہاوسنگ سکینڈل میں ملوث ہونے اور کرپشن جیسے سنگین الزامات عائد تھے کیونکہ نیب حکام کے مطابق فواد نے بطور سیکرٹری عملدرآمد وزیراعلی ا پنجاب اس سکیم کا معاہدہ ختم کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔ نیب کے زمہ دارتو اس معاملے میں رشوت کا الزام بھی عائد کرتے ہیں۔ نیب حکام بتاتے ہیں کہ فواد حسن فواد کی طرف سے مبینہ طور پر لی گئی رشوت کے دستاویزی ثبوت جب انہیں دکھائے گئے تو وہ درخواست کرنے لگے کہ انہیں ریکارڈ پر نہ لایا جائے بلکہ ان سے پہلے ہی ڈیل کرلی جائے۔

تفتیش کے دوران فوادحسن فواد اپنے ہرکام کی زمہ داری سابق وزیراعلی۱ پر ڈالتے تھے۔ اس لیے ۲۰ اگست کو جب شہبازشریف نیب لاہور آئے تو انکا فواد سے آمنا سامنا کرایا جارہاتھا۔ جب فواد کمرے میں داخل ہوئے تو شہباز بیٹھے ڈی جی لاہور سے گفتگو کررہے تھے ۔ انہوں نے شہباز شریف کو دیکھتے ہی رونا شروع کردیا اورشہبازشریف انہیں تسلیاں دینے لگے۔

شہبازشریف بولے، آپ فکر نہ کریں ، اسطرح برے دن آجاتے ہیں۔ فواد بولے ، نہیں سر میں جو کچھ بھی کرتا رہا وہ آپکے کہنے پر کرتا رہا۔ شہباز شریف نے پھر فواد کو چپ کرانے کی کوشش کی اور کہا کہ آپ پریشان مت ہوں۔ اس پر فواد بچوں کی طرح روتے ہوئے بولے ، ” ںہیں سر انہیں کلئیر کریں ، میں جو کچھ کرتا رہا آپ کی ہدایت پر کرتا رہا،”۔ شہباز شریف نے فوری کہا،” بالکل آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں "۔ پتہ نہیں شہباز فواد کو چپ کرا رہے تھے یا فی الحال اس عجیب و غریب صورتحال سے نکلنا چاہتے تھے لیکن انہوں نے یہ کہا مگر نیب کے تفتیشی افسر نے اس بات کے نوٹس لے لیے ۔یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ فواد کا یہ بیان کسی وعدہ معاف گواہ کا بیان نہیں تھا بلکہ ایک زیر حراست ملزم کا بیان تھا۔ جب فواد اپنے آنسوپونچھ رہےتھے تو شہباز شریف نے ٹیم کو اشارہ کیا جس پرنیب ٹیم انہیں وہاں سے لے کر چلی گئی۔

شہباز شریف وآپس چلے گئے ۔ مگر وہ واضع طور پر پریشان تھے اور شائد یہی وہ وجہ تھی کہ وہ اپنے بھائی نوازشریف کو بھی سمجھاتے کہ ، "زرا ہتھ ہولا رکھیں ، آپ پے تو جوآئی آئی ہمیں بھی لپیٹ لیا جائے گا،”۔

جب شہبازشریف کو طلب کرنے کا سمن جاری ہوا تو وقت ملک میں صرفایک دوطاقتور آدمی ہی جانتے تھے کہ دراصل یہ طلبی نہیں بلکہ گرفتاری کا بلاوہ ہے کیونکہ چیرمین نیب اپنے دورہ لاہور کے دوران ان کی گرفتاری کے وارنٹس خاموشی سے دستخط کرآئے تھے۔

شہباز شریف جب مقررہ ۵ اکتوبر کو کھدر کی قمیض اور پیلے رنگ کی پینٹ زیب تن کیے نیب آئے تو انہیں ڈی جی نیب شہزاد سلیم نے چائے پیش کی ۔ ابھی شہباز چائے کی چسکیاں لے ہی رہے تھے کہ انہیں بتایا گیا کہ آج انہیں گرفتار کرلیا جائے گا۔ شہباز شریف نے یہ سنتے ہی چائے کی پیالی میز پر رکھ دی اور حیرانگی کا اظہار کیا ۔ جس پر شہزاد سلیم نے انہیں کہا کہ جناب گرفتاری اپنی جگہ چائے اپنی جگہ ، آپ چائے پیئں۔ شہباز نے دیوار پرلگی قائد اعظم کی تصویر دیکھی اور بولے ۔۔ قائد اعظم کے پاکستان کا کیا بنے گا؟ اور پھر خاموش ہوگئے۔۔ خیر موقع پر موجود نیب ٹیم نے انہیں لاک اپ میں بھیج دیا۔ جہاں پہلے آدھے گھنٹے تک شہبازشریف داہنے ہاتھ سے سر کو پکڑے کرسی پر بیٹھے ٹانگین بستر پررکھ کر بے سدھ سوچتے رہے اور پھرنارمل ہوگئے۔

ٹھیک دوروز بعد اتواز کی شام نوازشریف اپنے زیرحراست بھائی سے ملنے نیب لاہور دفتر آئے۔ ان کے ہمراہ شہباز شریف کی اہلیہ نصرت شہبازاوران کے بیٹے حمزہ اور سلیمان بھی تھے۔

دونوں بھائیوں میں بڑی جذباتی ملاقات ہوئی۔ شہبازشریف نے بیٹھتے ہی نیب کے تفتیشی افسران کی شکایت شروع کردی۔ بولے ، ” تفتیشی تو ایک ٹھینگنا ہے اسے سوال کرنا بھی نہیں آتا۔” نوازشریف اور شہباز دیگر کے ساتھ انہی صوفوں پر براجمان تھے جہاں بیٹھ کر اگست میں فواد حسن فواد نے سسکیاں لیتے ہوئَے، شہباز سے اپنے اقدامات کی توثیق کروائی تھی۔

حیران کن طور پر ملاقات میں ڈی جی نیب شہزاد سلیم بھی اپنی کرسی پر بیٹھے تھے۔ اچانک نوازشریف ان سے مخاطب ہوئے،"شہزاد صاحب آپ کو خدا نے بڑا عہدہ دیا ہے ، آپ انصاف کریں کیونکہ آپ نے خدا کو بھی جواب دینا ہے"۔ اس پر شہزاد سلیم نے نوازشریف کو فواد حسن فواد کے ہی نہیں بلکہ اسی کیس میں گرفتار کیے گئے احد چیمہ کے بارے بھی تفصیلی بریفنگ دے ڈالی اور نوازشریف سے سوال کیا کہ آپ بتائیں کہ اس قدرمتحرک وزیراعلی۱ خاص افسران کی طرف سے مبینہ لین دین سے کیسے بے خبر رہا؟ اس پر نوازشریف نے اپنا خیال ظاہر کیا اور کچھ دیر میں ملاقات ختم ہوگئی۔ ملاقات میں نواز اور شہباز کی قربت دیدنی تھی۔

شائد شہبازشریف کی گرفتاری کی بہت سی دیگر وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے اپنے بڑے بھائی کے خلاف علم بغاوت بلند نہیں کیا۔ مجھے نیب کے ایک افسر نے بتایا ہے کہ شہباز شریف پرسکون ہیں اور اپنے تجربات کی روشنی میں ایک کتاب لکھنے کا ارادہ کرچکے ہیں۔ شائد وہ حالیہ انتخابات کے حوالے سے کتاب میں وہ باتیں بھی لکھ دیں جن کی کم لوگ ہی ان سے توقع کرتے ہیں۔

یہ بات تو واضع ہے کہ احتساب صرف شریف خاندان اور مسلم لیگ ن کا ہورہا ہے۔ یہ احتساب اصولوں پر نہیں بلکہ کسی کے اشارے پر ہورہا ہے اور مقصد انصاف نہیں بلکہ کچھ طاقتوں کو کچھ یقین دہانیوں کا حصول ہے۔

اس معاملے سے ہٹ کر نیب پنجاب کی طرف سے فواد حسن فواد کے بارے ثبوت اکٹھے کرنے کا دعویِ بھی کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ لگ بھگ پانچ کروڑ روپے کی رقم مبینہ رشوت کے طور پر ادا کی گئی جس کی بینکنگ ٹرانزیکشنز کے ثبوت حاصل کرلیے گئے ہیں جو ان کے خلاف ریفرنس کا حصہ بنیں گے۔ میں فواد حسن فواد کو زاتی طورپرنہیں جانتالیکن میرے بعض سینئرزکا خیال ہے کہ فواد نہ صرف ذہین بلکہ بڑے ایماندار بھی ہیں۔ میرے خیال میں اگروہ واقعی سچے  اور ایماندار ہیں تو سچ ضرورسامنے آِئے گا اور اگر انہوں نے نیب کے دعوِے کی مطابق واقعی گڑ بڑ کی ہے تو اسکی زمہ داری ان کے ساتھ ساتھشہباز شریف پر بھی عائد ہوتی ہے۔ وجہ یہ کہ اگر فواد حسن فواد پنجاب میں وزیراعلیٰ کی ناک کے نیچے بیٹھ کر کوئی گڑبڑ کرتے رہے تو شہباز شریف اس سارے معاملے سے بے خبر کیوں رہے ؟ یہ بھی سچ ہے کہ نیب کے پاس شہبازشریف کی طرف کسی ناجائز لین دین کا ثبوت نہیں ہے تاہم جب اس بارے میں نیب کے زمہ داروں سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ، ٴ اس سارے کھیل میں شہباز شریف کا کرداریہ تھا کہ انہوں نے کمرے کی کنڈی کھلی اور ان کے چہیتوں نے لوٹ مار کی ٴ۔

ادھر شہباز شریف کو سترہ اکتوبر کو سپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے جاری پروڈکشن آرڈرز کے اجرا کے بعد پارلیمینٹ لایا گیا تو  ایوان میں اپنے خطاب اور مجھ سمیت میڈیا کے نمائندوںسے ملاقات کے دوران شہباز شریف کوئی ایسی بات کرنےسے گریزاں رہے جس سے کھیل کے اصل کردار آشکار ہوسکیں۔ شائد وہ خود کوطاقت کے مراکز میں قابل قبول بنا رہے تھے ۔ مایوس کن بات یہ تھی کہ وہ اپنے سامنے بیٹھے ہوئے صحافیوں سے اسطرح گفتگو فرما رہے تھے کہ جیسے صحافیوں کو کچھ پتہ ہی نہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ نوازشریف اور شہباز شریف جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو وہ اپنی کابینہ ،پارلیمینٹ اورپارٹی سب کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ان سے ملاقات کے لیے بھی انہی افسران کی خوشنودی اور منظوری درکار ہوتی ہے۔ شریف برادران اقتدار میں کچھ افسران کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ وہی افسران ان کی حکومت چلاتے اور سیاہ وسفید کے مالک بنے پھرتے ہیں اور آخر پرکچھ افسران ان کی حکومت ختم کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں تو کچھ کی سسکیاں عدالتوں میں شریف برادران کی پشیمانی کا سبب بنتی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ طاقتور قوتیں آجکل شریف برادران کے درپے ہیں مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ شریف برادران کو درپیش حالیہ صورتحال کی ایک بڑی وجہ اقتدار کے دنوں میںان کی طرف سے اپنی پارٹی  اور پارلیمینٹ دونوں کو نظر انداز کرنا بھی ہے ۔ اگر وہ اچھے وقتوں میں پارٹی اور پارلیمینٹ کو نظر انداز نہ کرتے تو شائد انہیں یہ سزا ئیں ملتی نہ آج یہ دن دیکھنا پڑتے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے