پاکستان24 متفرق خبریں

جعلی اکاؤنٹس کیس میں پیش رفت

اکتوبر 23, 2018 7 min

جعلی اکاؤنٹس کیس میں پیش رفت

Reading Time: 7 minutes

جعلی بینک اکاوئنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی ٹرانزیکشن کے مقدمے میں جے ائی ٹی نے دوسری پیش رفت رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق معاملہ اربوں روپے کے جعلی اکاؤنٹس سے زیادہ پیچیدہ ہے، جعلی اکاؤنٹس اور کمپنیوں کا ایک جال ہے، اب تک اکیانوے ارب کی ٹرانزیکشنز، 36 بے نامی کمپنیوں اور 600 افراد کے اس معاملے سے منسلک ہونے کا پتہ لگایا گیا ہے ۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مقدمے کی سماعت کی ۔ عدالت کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم جے آئی ٹی کے سربراہ احسان صادق نے بتایا کہ تحیقیقات تاحال جاری ہیں، معاملہ جعلی اکاوئنٹس سے زیادہ پیچیدہ اور بڑا فراڈ ہے، جعلی اکاؤنٹس اور کمپنیوں کا پورا جال ہے جس میں ایک فالودہ بیچنے والے، رکشہ ڈرائیور اور مرے ہوئے شخص کے نام پر بھی دو اکاؤنٹس کھولے گئے، اس سے سرکاری محکموں کے علاوہ نجی مالیاتی ادارے بھی منسلک رہے، 47 ارب روپے ان اکاؤنٹس کے ذریعے ادھر ادھر کئے گئے، 36 بے نامی کمپنیاں ہیں جن سے مزید 54 ارب روپے منتقل کئے گئے، یہ زیادہ تر اومنی گروپ کی ہیں، یہ اکاؤنٹس ایک خاص مدت کیلئے کھولے گئے بعد میں بند کر دیے گئے، ان سے 600 افراد اور کمپنیاں منسلک رہیں، پیسہ نکال کر اکاؤنٹس بند کئے گئے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ چور سب سے پہلے چوری کا پیسہ نکال کر محفوظ بناتا ہے، زندگی سے زیادہ پیسے سے محبت ہے، مر جائیں گے ایک دھیلہ نہیں دیں گے ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا آپ معاملہ کی تہہ تک پہنچ جائیں گے؟۔ کیا کراچی میں تفتیش سے ایسا ممکن ہے؟ کیا تعاون مل رہا ہے؟ ۔ جے ائی ٹی کے سربراہ احسان صادق نے کہا کہ معاملہ کی حقیقت کا پتہ چلائیں گے تاہم بدقسمتی سے سندھ حکومت سے تعاون نہیں مل رہا، بے دلی سے ہمارے خطوط کا جواب دیا جاتا ہے ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ نام لیں کون تعاون نہیں کر رہا؟ احسان صادق نے بتایا کہ چیف سیکرٹری سندھ، سیکرٹری انرجی، سیکرٹری آبپاشی، سیکرٹری فنانس و ایگری کلچر اور سیکرٹری خصوصی اقدامات سے ریکارڈ مانگنے کیلئے کہا ہے مگر تاحال نہیں ملا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ شام تک یہیں پر بلا لیتے ہیں ۔

جسٹس اعجاز الاحسن کے پوچھنے پر احسان صادق نے بتایا کہ معاملے سے منسلک کئی افراد بیرون ملک چلے گئے ہیں ۔ عدالت کے پوچھنے پر سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل سلمان طالب الدین نے کہا کہ جے آئی ٹی نے 2008 سے 2018 تک سندھ حکومت کے تمام سرکاری ٹھیکوں کی تفصیلات مانگی ہیں، ایک کمرہ بھی پینٹ کیا گیا ہے تو اس ٹھیکے کا بھی ریکارڈ دیں گے تو یہ بہت بڑا کام ہے، دستاویزات کا ذخیرہ اور انبار ہوگا اس لئے وقت لگ رہا ہے ۔ ہمارے جواب پر جے آئی ٹی نے اس کو کم کر کے مخصوص 46 کمپنیوں اور اشخاص کو دیئے گئے سرکاری ٹھیکوں کو تفصیلات فراہم کرنے کیلئے کہا، پھر مزید محدود کرتے ہوئے ایک کروڑ روپے سے زائد کے ٹھیکوں کا تفصیل دینے کیلئے کہا ہے ۔ اب ہمارے لئے آسان ہے مگر پھر بھی تمام ریکارڈ دیکھنا ہوگا کہ ان 46 کمپنیوں کے ٹھیکے ڈھونڈنا ہوں گے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس کام کیلئے غیر معینہ مدت نہیں دیں گے، 26 اکتوبر کو اس کیلئے کراچی میں عدالت لگاتے ہیں، پھر دیکھتا ہوں کیسے ریکارڈ نہیں آتا، جمعے کو آ رہا ہوں، چار دن میں یہ سب کر لیجئے، اب ٹیلی فون کر کے بتا دیجیئے کہ وہ کہہ رہا ہے آ رہا ہوں ۔ جے آئی ٹی کے سربراہ نے بتایا کہ ہمیں جو دستاویزات چاہئیں ان کی فہرست سندھ کے چیف سیکرٹری کے حوالے کی ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 26 اکتوبر کو تمام متعلقہ سیکرٹری ریکارڈ کے ساتھ عدالت آ جائیں ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ریکارڈ متعلقہ ہونا چاہیئے ایسا نہ ہو کہ نیسلے کمپنی کے مقدمے کی طرح درجنوں ڈپوں میں غیر متعلقہ دستاویزات بھر کر لے آئیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں یہ بھی دیکھوں گا کہ تعاون نہ کرنے پر ان افسران کے خلاف کیا کارروائی کی جائے ۔ سندھ کے ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ جے آئی ٹی کے سربراہ کا تعاون نہ ملنے کا بیان افسوس ناک ہے، اب تک مکمل تعاون کیا ہے اور انہوں نے جتنے خطوط لکھے ان کا جواب دیا گیا ۔ عدالت نے کہا کہ چلیں آپ کے اس بیان کو عدالتی حکم نامے کا حصہ بنا لیتے ہیں ۔

چیف جسٹس نے کہا ہے کہ کیا ملزمان پھر سے ہسپتال منتقل ہو گئے ہیں؟ جے آئی ٹی کے سربراہ نے بتایا کہ انور مجید اسپتال میں ہیں ان کو دل کا عارضہ لاحق ہے، جیل کے ڈاکٹر کی ہدایت پر ہسپتال منتقل کیا گیا ۔ وکیل نے بتایا کہ ملزم طاحہ رضا کے گھنٹے میں فریکچر ہے اور اس کو سرجری کی ضرورت ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انور مجید کو راولپنڈی انسٹیوٹ آف کارڈیالوجی منتقل کروا دیتے ہیں، مجھے سندھ کے کسی ڈاکٹر کی رپورٹس پر اعتبار نہیں ۔ عدالت نے سی ایم ایچ کراچی کو ملزم کی رپورٹس کا جائزہ لینے کی ہدایت کرتے ہوئے ایک ہفتے میں رپورٹ دینے کی ہدایت کی ۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ وہ کون صاحب تھے بواسیر والے؟ کہاں ہیں وہ؟ ۔ بااثر ملزم صبح جیل سپرینڈنٹ کے کمرے اور رات کو گھر ہوتے ہیں، آئی جی کہاں ہے؟ 26 اکتوبر کو وہ بھی عدالت آ جائے ۔ وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ نیشنل بنک کی رپورٹ آ گئی ہے، اومنی گروپ نے بینکوں کے 23 ارب دینے ہیں، تین شوگر ملیں بند ہو چکی ہیں، 15 نومبر سے کرشنگ سیزن شروع ہو رہا ہے، گنا کا چھوٹا کاشتکار مارا جائے گا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں بھی اس رخ کو دیکھ رہا ہوں، ایک عدالتی افسر کے سامنے گنا کی خریداری ہوگی اور ادائیگی وہیں پر کی جائے گی ۔

انور مجید کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ قانون کے مطابق جے آئی ٹی کی عبوری رپورٹ ہمیں بھی دی جائے تاکہ اس پر اپنا مؤقف پیش کر سکیں، اگر یہ سب کچھ یکطرفہ ہوتا رہا تو ہمارا قانونی حق متاثر ہوگا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس مرحلے پر نہیں دی جا سکتی، تفتیش مکمل ہونے دیں پھر رپورٹ پر آپ کا مؤقف بھی سن لیں گے ۔ وکیل نے کہا کہ اگر رپورٹ کی نقل نہیں دینی تو ایک دو منٹ سن ہی لیں، انور مجید کی عمر 77 برس ہے اس کو کئی امراض لاحق ہیں، بیس برس قبل سٹنٹ ڈالا گیا تھا، اس کے دل کا والوو خراب ہے، اس کو بلڈ پریشر بھی ہے، جیل عملہ سپریم کورٹ کے حکم کو آڑ بنا کر طبی امداد فراہم نہیں کرتا ۔ وکیل نے بتایا کہ کراچی میں چار گھنٹے تک شکایت کے باوجود جیل عملہ انور مجید کو اسپتال منتقل نہیں کر رہا تھا، رات گیارہ بجے جب حالت بہت زیادہ خراب ہوئی تو ہسپتال لے جانے کی اجازت دی گئی ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ انور مجید کو کراچی سے یہاں لانے کا سوچ رہا ہوں، انور مجید کو اڈیالہ جیل منتقل کر دیتے ہیں، 24 گھنٹے انہیں ڈاکٹر کی سہولت میسر ہوگی، زیادہ مسئلہ ہوا تو آر آئی سی یا پمز لایا جا سکتا ہے ۔ وکیل نے کہا کہ ایسے کیا حالات ہیں کہ عدالت 77 سال کے شخص کی خرابی صحت کا یقین نہیں کرتی، یہ غیر معمولی رویہ ہے، عدالت ایسا حکم کیوں دیتی ہے ۔ چیف جسٹس نے سخت غصے میں کہا کہ عدالت کیون نہ کرے جب تک اس پر اربوں روپے کے جعلی اکاؤنٹس کا الزام ہے ۔ یہ بابے جب باہر ہوں تو ٹھیک ہوتے ہیں جیل چلے جائیں تو ان کی صحت خراب ہو جاتی ہے ۔

وکیل نے کہا کہ استدعا ہے کہ اس طرح کے حالات میں انور مجید کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ حکومت ان کو تحفظ دے رہی ہے کچھ نہیں ہوگا ۔ وکیل نے دوبارہ استدعا کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کی درخواست خارج کر چکے ہیں، یہ حتمی ہو چکا ۔

وکیل شاہد حامد نے بتایا کہ عبدالغنی مجید کو قانون کے مطابق بی کلاس دی جائے، بنکنگ کورٹ میں جہاں یہ مقدمہ زیر سماعت ہے وہاں درخواست نہیں سنی جا رہی اس لئے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے ۔ وکیل نے کہا کہ امنی گروپ کے اکاؤنٹس دی فریز کرنے کیلئے بھی درخواست دی ہے کیونکہ ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنی ہیں، جے آئی ٹی نے جس مرے ہوئے شخص کا اکاؤنٹ ڈھونڈا ہے اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب تک اس 91 ارب روپے کا پتہ نہیں چلتا اکاؤنٹس ڈی فریز نہیں کریں گے ۔ وکیل نے کہا کہ کمپنی کے کئی ڈائریکٹرز ہیں تمام لوگوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کس قانون کے تحت ہم یہ نہیں کر سکتے ۔ وکیل نے کہا کہ جب تک ثابت نہ ہو جائے ملزم معصوم تصور ہوتا ہے ۔ وکیل نے کہا کہ ملزم کو یہاں منتقل اس لئے نہیں کیا جا سکتا کہ اس کیلئے ڈاکٹرز کی ہدایات ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ائر ایمبولینس میں لے آتے ہیں، امیر آدمی ہیں، اربوں پتی کھربوں پتی لوگ ہیں، اسلام آباد میں آ کر رہ لیں 50 50 کنال کے دس گھر رہائش کیلئے لے سکتے ہیں ۔

وکیل نے کہا کہ ایسی بات نہیں، پورا خاندان کراچی میں رہائش پذیر ہے اس لئے وہیں پر علاج کرایا جائے ۔ وہ بیرون ملک سے اس مقدمے کی وجہ سے ہی واپس آئے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے پتہ ہے وہ کن حالات میں واپس آئے ہیں، اگر میں نے عدالت میں سب کہہ دیا تو ان کو شرمندگی ہوگی، ہمیں قانون کی حکمرانی کے قیام میں رکاوٹ پیدا کرنے والوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے، ملزم ابھی تک فرنچ پانی پیتے ہیں، ان کا پانی بھی فرانس سے آتا ہے، بولو ایف آئی اے والو، پیتے ہیں یا نہیں ۔

وکیل نے کہا کہ ڈاکٹرز کی رپورٹس دیکھ لی جائیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ کے کسی ڈاکٹر کی رپورٹ کی بنیاد پر رائے قائم نہیں کریں گے، ان کو آسانی سے متاثر کیا جا سکتا ہے ۔ وکیل شاہد حامد نے کہا کہ سندھی ڈاکٹرز کے بارے میں اس طرح کے تحفظات ظاہر کرنے کے اثرات ہو سکتے ہیں ۔ چیف جسٹس نے سخت لہجے میں کہا کہ آپ ہمیشہ اینگل دینے کی کوشش کرتے ہیں، میں نے کسی سندھی ڈاکٹر کا نہیں کہا، آپ اپنے الفاظ واپس لیں ۔ وکیل نے کہا کہ عدالت کی آبزرویشن پر میں نے توجہ دلائی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو پہلے احتیاط کرنا چاہئیے تھی، ایسی بات کرنا ہی نہیں چاہیئے تھی، سندھ میں کتنا اثر رسوخ استعمال ہو رہا ہے سب معلوم ہے، سندھی ڈاکٹروں سے عدالت کو کوئی مسئلہ نہیں ہے، سیمی جمالی نے دباؤ ڈالے جانے کے پیغامات دکھائے ۔

وکیل نے کہا کہ میں صرف استدعا ہی کر سکتا ہوں کہ میرے مؤکل کی صحت کی وجہ سے عدالت ان کو علاج کی سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت جاری کرے ۔ ایک اور ملزم کے وکیل نے کہا کہ عدالت میڈیا کو روکے کہ وہ آرڈر کے سوا کچھ رپورٹ نہ کرے، جیسے کہ جج نے کہہ دیا کہ چوری کا مال ہے، میڈیا سارا دن یہی چلاتا ہے، اس سے کیس متاثر ہوتا ہے اور شہرت کو نقصان پہنچتا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم پہلے ہی میڈیا پر سماعت پر تبصروں سے روک چکے ہیں ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے