کالم

فیض آباد

نومبر 3, 2018 5 min

فیض آباد

Reading Time: 5 minutes

مطیع اللہ جان

پاکستان کے جڑواں مگر ناراض شہروں کا سنگم فیض آباد ایک بار پھر خبروں میں ھے۔ راولپنڈی اور اسلام آباد آئینی اعتبار سے جڑواں ہو کر بھی سیاسی اعتبار سے سوتیلے رہے ہیں۔ اقتدار اسلام آباد کی شاہراہً دستور پر رہا مگر اختیار راولپنڈی کی مال روڈ پر۔ تقریریں اور اجلاس اسلام آباد کے پارلیمنٹ ہاوٗس و وزیر اعظم سیکریٹیریٹ میں مگر فیصلے راولپنڈی کے جی ایچ کیو و کور کمانڈر اجلاسوں میں ہوتے رہے۔

تاریخی اعتبار سے ہماری جمہوریت کو سول ملٹری تعلقات کے نقطہٗ توازن و عدم توازن کے ’فیض آباد‘ پر مسلسل ایک مخصوص دھرنے کا سامنا ھے۔ ایک ایسا دھرنا جسکا اختتام (دراصل وقفہ) ہمیشہ ایک معائدے پر ہوتا ھے۔ یہ وہ معائدہ ہے جس پر بظاہر منتخب اور غیر منتخب قووتوں کے بطور فریق دستخط ہوتے ہیں۔ مگر ایسے معائدوں کی ہمیشہ ایک خفیہ شق رہی ھے جس پر وقت کے گورنر سٹیٹ بینک کے دستخط ہوتے رہے۔ بابا قائد کی تصویر والے معائدے کی اُس شق میں مختصراً لکھا ہوتا ھے “حامل ہذا کو مطالبے پر ادا کریگا، حکومت پاکستان کی ضمانت سے جاری ہوا۔” فیض آباد چوک پر جب بھی عوام یا اسکی حکومت کا ٹریفک چالان ہونے لگا تو دونوں بیچاروں نے قائد کے اس غیر مصدقہ فرمان “جتھے پھنسو مینو دسو” پر صدقِ دل سے عمل کر کے جان چھڑائی۔ جوں جوں ہمارے کچھ اداروں کے کاروباری مفادات بڑھتے جا رہے ہیں گورنر سٹیٹ بنک کے دستخط والے فیض آباد معائدوں کی اہمیت پہلے سے بھی زیادہ بڑھتی جا رہی ھے۔

متشدد مذہبی جنونیت ہمارے معاشرے کی اصل بیماری نہیں بلکہ اس بزدلانہ سیاسی کلچر کا نتیجہ ھے جس میں ہر سیاسی جماعت اور ادارے نے ایک تسلسل سے ماورا آئین و عدالت اقدامات، مذہبی جنونیت اور تشدد کو بطور پالیسی اپنایا یا اسکے آگے ہتھیار پھینکے۔ ہماری تاریخ فیض آباد معائدوں سے بھری پڑی ھے۔ کیا آٹھویں ترمیم فیض آباد معائدہ نہیں تھا؟ کیا آئی جے آئی کا قیام فیض آباد دھرنا نہیں تھا؟ کیا اوجڑی کیمپ اور کارگل پر عدم تحقیقات فیض آباد معائدہ نہیں تھا؟ کیا ۱۲ اکتوبر کی فوجی بغاوت، اسکو دیا گیا آئینی تحفظ اور آئینی تحفظ کے خاتمے پر عدم کاروائی کیا وہ سب بعد کے فیض آباد دھرنوں اور معائدوں سے مختلف تھا؟ کیا ۲۰۰۱ کا شریف خاندان اور مشرف بیچ قبل از جلاوطنی معائدہ یا مشرف بی بی این آر او فیض آباد معائدے سے کم تھا؟ کیا مشرف حکومت کے طالبان سے مزاکرات و معائدے اور احسان اللہ احسان جیسے دھشت گرد کے ساتھ مہمان نوازیاں فیض آباد معائدوں سے کم تر ہیں؟ کیا ایبٹ آباد پر امریکی حملے اور آرمی پبلک سکول میں بچوں کے قتل عام میں غفلت کی مرتکب افراد اور اداروں کے خلاف عدم کاروائی آج کے فیض آباد معائدوں سے کم شرمناک ہے؟ کیا صحافی حیات اللہ خان کے قتل اور حامد میر پر قاتلانہ حملوں کی عدالتی کمیشنوں کی رپورٹ کا عدم اجراً بھی فیض آباد معائدہ نہیں؟ کیا ڈی چوک میں تحریک انصاف کے دھرنے کے بعد عدلیہ اور حکومت کا آئین سے سنگین غداری کے ملزم جنرل (ر) مشرف کو جنرل راحیل شریف کے دباوٴ میں ملک چھوڑنے کی اجازت دینا فیض آباد معائدہ نہیں؟ اور اسی طرح آج بھی ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والے جب گھر بیٹھے ووٹ کی پرچی کو استری کر رہے ہیں تو کیا یہ بھی فیض آباد معائدہ نہیں؟ ہمیں آج کے فیض آباد دھرنے اور معائدے غیر آئینی اور غیر قانونی نظر آ رہے ہیں مگر اپنی سیاسی تاریخ کے ’فیض‘ انکے آباد کردہ فیض آباد ، انکے فیضیاب سیاستدان اور جمہوریت کے نام پر اقتدار کی خاطر کیئے گئے ویسے ہی بے فیضے معائدے ہمیں کیوں بھول جاتے ہیں؟

عمران خان کی ممنون اور کٹھ پتلی حکومت ہو، نواز شریف کی بزدل اور بلیک میل ہونے والی جمہوریت ہو، زرداری کی مبینہ طور پر کرپٹ اور کمزور انتظامیہ ہو یا جنرل (ر) مشرف کی دوغلی پالیسی والی آمریت ہو سب نے اپنے اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر مذہبی جنونیوں سے مزاکرات و معائدے کیے اور انکی حوصلہ افزائی کی۔ الیکشن سے پہلے عمران خان اور اسکے امیدواروں نے درپردہ قووتوں کی مدد سے ختم نبوت کے طے شدہ مسئلے پر جو آگ لگائی آج وہی آگ ان کے دامن کو چھو رہی ھے۔ اس سے پہلے ن لیگ نے بھی اپنی حکومت کے آغاز میں مذھب کو انتخابی اور سویلین بالادستی کا جو ذریعہ بنانے کی کوشش اسکا نتیجہ اسے اور قوم کو بھی بھگتنا پڑا۔ جب آپ آئینی بالادستی کو بزدلانہ یا نیم دلانہ انداز میں نافذ کریں گے تو بغاوت، دھرنے اور فیض آباد معائدے تو ہونگے ہی۔ کیا آرمی پبلک سکول کے ہولناک سانحہ کے بعد غافل افراد اور محکموں کے خلاف کاروائی آئین کی بالادستی کا تقاضا نہ تھا؟ آئین میں ترمیم کر کے فوجی عدالتوں کا قیام اور پھر ڈان لیکس جیسے کمزور ڈرامے پر بھی فیض آباد معائدہ نہیں ہوا؟

اس سے پہلے آصف زرداری صاحب کا دور بھی کچھ مختلف نہیں تھا۔ ملک کے صدر سے منسوب بیان آیا کہ ایمبولنس میں ہی ایوان صدر سے جاوًنگا۔ پھر ایبٹ کمیشن اور میمو کمیشن کا وٹہ سٹہ ہو گیا۔ امریکی حملے کو روکنے میں ناکامی اور غفلت کے باوجود آرمی چیف جنرل کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشا نے مدت ملازمت پوری کر لی اور میمو کمیشن ڈرامے میں نام آنے کے باوجود آصف زرداری نے سفیر پاکستان حسین حقانی کی کالے بکرے والی قربانی دیکر اپنی مدت حکومت پوری کر لی۔ یہ سب فیض آباد معائدے نہیں تو کیا تھے۔

جب ہم کالج پڑھتے تھے تو فیض آباد کے مقام پر ایک سگنل والا چوک تھا جہاں ٹریفک جام معمول کی بات تھی۔ یہ وہی وقت تھا جب وزیر اعظم بے نظیر بھٹو پاکستان میں بحال شدہ جمہوریت کا کریڈٹ تمغہ جمہوریت کی شکل میں جنرل اسلم بیگ کو عطا کر چکی تھی۔ اس سب کے باوجود بھی فیض آباد چوک پر ’اسلام آباد والوں‘ کی کاریں ’پنڈی والوں‘ کی جیپوں اور ٹرکوں سے ٹکرا رہی تھی۔ اردو والا ’چوک‘ انگریزی والا ’choke‘ یعنی بند رہتا تھا۔ اُس چوک پر بھی پنڈی والوں کے لیئے سگنل زیادہ تر سبز ہی رہتا تھا۔ جنرل ضیا کا آمرانہ ورثہ آتھویں ترمیم صدر کے ہاتھ میں تلوار کی مانند منتخب حکومت کی گردن پر لٹکی رہی اور کئی بارگری بھی۔ اور پھر سیاستدانوں نے اس سیاسی فیض آباد پر تیرویں آئینی ترمیم کا انٹرچینج بنا دیا اور تلوار ٹوٹ گئی۔ اسمبلی اور حکومت ختم کرنے کا صدارتی اختیار ختم ہوا تو اسلام آباد کی ٹریفک زیادہ رواں ہوگئی۔ مگر پھر بارہ اکتوبر کی دھرنے مانند بغاوت نے سیاست کے اس فیض آباد انٹرچینج کو پنڈی کی ٹریفک کیلیئے سگنل فری کاریڈور بنا دیا اور اسلام آباد کے سیاستدانوں کو اپنی منزل پانے یا پرانے ائیرپورٹ پر بروقت پہنچنے کے لیئے ایک لمبا یو ٹرن لینا پڑا۔

دو ھزار آٹھ کے بعد سے اِس سیاسی فیض آباد انٹرچینج پر سگنل فری کاریڈور ختم ھے مگر اسلام آباد کی جمہوری ٹریفک کو بھاری ٹول ٹیکس کا سامنا ھے جسکی وصولی ہر کچھ عرصے بعد کی جاتی ھے۔ فیض آباد انٹرچینج اسلام آباد اور راولپنڈی کی ہی نہیں بلکہ پاکستان میں اکتر سالہ سول ملٹری تعلقات کی تاریخ کی علامت بن گیا ھے۔ ہماری سول ملٹری تعلقات کی تاریخ کی یہ وہ لائن آف کنٹرول جہاں سے ہم اپنے اپنے مجاہدین کی اخلاقی سپورٹ کرتے رہہتے ہیں۔ فیض آباد انٹرچینج سول ملٹری تعلقات کا وہ واہگہ بارڈر ھے جہاں ہمارے خوبرو، قد آور اور طاقت ور باوردی نوجوان اپنی پریڈ میں بوٹ کو سر سے اونچا لیجاکر ٹی وئ سکرینوں کے ذریعے نریندر مودی کی سویلین سرکار اور ہندووٗں کے دل دھلاتے رہیتے ہیں۔ ہم پاکستانی عوام واہگہ بارڈر پر انہیں دیکھ کرفخر کرتے ہیں اور ہم میں تحفظ کا احساس بڑھ جاتا ھے۔

واپس موضوع کی طرف آتے ہیں۔ یہاں انٹرچینج تو بن گیا ھے اور سیاست و جمہوریت کی ٹریفک بھی رواں ھے مگر اب شاہد راولپنڈی والوں کو بھی ایک ہی بار اسلام آباد آنے اور ڈیرے ڈالنے کی ضرورت نہیں رہی۔ جب ضرورت پڑی تو ظہیر الاسلام آباد چوک اور فیض آباد چوک بہت شارٹ نوٹس پر آباد ہو جائیں گے۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے