کالم

جب لکھا ہوا فیصلہ دوبارہ لکھنا پڑا

نومبر 27, 2018 5 min

جب لکھا ہوا فیصلہ دوبارہ لکھنا پڑا

Reading Time: 5 minutes

آج ایک ایسے کیس کی روداد پیش ہے جس میں بنچ کے سربراہ کا لکھا ہوا فیصلہ ساتھ بیٹھے ججوں نے تبدیل کرایا ۔ وجہ یہ تھی کہ بنچ کے سربراہ فوجداری قانون کے ماہر نہیں ہیں اور ساتھی ججز کریمنل لا کے ایکسپرٹ ہیں ۔ پڑھیے ۔

سپریم کورٹ نے تیس سالہ منشیات اسمگلر یاسمین بی بی کی سزا میں کمی کرتے ہوئے فوری رہا کرنے کا حکم دیا ہے ۔ یاسمین بی بی پانچ سال کی قید کاٹ رہی تھی اور اس نے جیل میں بچی کو جنم دیا تھا ۔ جسٹس گلزار احمد نے میڈیکل رپورٹ پڑھ کر کہا کہ اس خاتون کی حالت بہت خراب ہے، اس کے چار بچے تھیلیسیمیا سے مر چکے، حکومت کو ایسے افراد کی حالت سے کوئی سروکار نہیں، ہمارا سوشل سیکٹر کیا کر رہا ہے؟ اس کی مدد کرنے والا کوئی نہیں؟ یہ کلاسیک کیس ہے دیکھ کر مدد کی جائے، یہ ہماری ریاست کی بہت بڑی ناکامی ہے ۔

عدالت عظمی کے تین رکنی بنچ کے سامنے سزا یافتہ یاسمین بی بی کے وکیل نصر من اللہ نے اپیل میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے پانچ سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی، ہائیکورٹ نے برقرار رکھی ۔ وکیل کا کہنا تھا کہ یاسمین بی بی بی کو پبلک ٹرانپسپورٹ سے حراست میں لیا گیا مگر کسی مسافر کو گواہ نہ بنایا گیا، پانچ پیکٹس میں 5 کلو گردا (چرس) برآمد کی گئی، یہ پہلے ہی تین سال قید کاٹ چکی ہے ۔

جسٹس مقبول باقر نے وکیل سے کہا کہ کوئی اور قانونی نکتہ بھی سامنے لائیں ۔ وکیل نے کہا کہ جیل میں ہیپاٹائٹس سی کا مرض لگ گیا ہے اس کی میڈیکل رپورٹ ساتھ لگائی ہے، اس کی ایک بچی جیل میں بھی پیدا ہوئی ہے ۔ پنجاب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اس کیس میں پانچ میں سے صرف ایک پیکٹ کا کیمیائی تجزیہ لیبارٹری سے کیا گیا اور اس میں بھی تفصیلی تجزیے کی رپورٹ نہیں ہے، ہائیکورٹ ایک فیصلے میں قرار دے چکی ہے کہ ہیپاٹائٹس سی کی وجہ سے مجرم کی سزا میں ایک تہائی کمی کی جا سکتی ہے ۔

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ سارے پیکٹس کو ایک ہی بنا کر کیمیائی تجزیہ نہیں کرنا چاہئے تھا الگ الگ ہر ایک کا ٹیسٹ کیا جاتا ۔ وکیل نے بتایا کہ قانون کے مطابق ایک کلو چرس برآمد ہونے کی سزا ایک سال نو ماہ قید ہے ۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ یہ خاتون بہت بری حالت میں ہے اس کے پیچھے کون ہے جو اس سے یہ کام کرا رہا ہے، یہ خود سے یہ کام نہیں کر سکتی ۔ اس کے چار بچے بیماری سے مر چکے، یہ ہو کیا رہا ہے، ہمارا سوشل سیکٹر کیا کر رہا ہے، کیا اس خاتون کی مدد کرنے والا کوئی نہیں؟ حکومت اس طرح کے لوگوں کی جانب کوئی توجہ نہیں دیتی ۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ یہ کلاسیک کیس ہے کہ اس کو دیکھ کر مدد کی جائے ۔

پنجاب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے ۔ عدالت کے پوچھنے پر بتایا گیا کہ مجرمہ کا شوہر نشہ کرتا ہے ۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ کسی نے لیبارٹری کی رپورٹ کو چیلنج نہیں کیا، یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ کتنی مقدار کا کیمیائی تجزیہ کیا گیا، پھر اس کا کیا کیا جائے؟ سرکاری وکیل نے کہا کہ اس کو ایک کلو ہی مانا جائے گا پانچ کلو نہیں ۔

جسٹس مقبول باقر نے یاسمین بی بی کے وکیل سے مسکرا کر کہا کہ آپ کو اس کے ماسٹرز (ہینڈلرز) نے وکیل مقرر کیا ہوگا ۔ وکیل نے جواب دیا کہ مائی لارڈ، ایسی کوئی بات نہیں، اس کے بچوں کی وجہ سے یہ مقدمہ لیا ہے ۔ جسٹس گلزار احمد نے مجرمہ کی میڈیکل رپورٹ پڑھتے ہوئے کہا کہ یہ ہماری ریاست کی بہت بڑی ناکامی ہے، ہمارا سوشل سیکٹر بھی بالکل فعال نہیں ہے، دو بچوں کی ماں ہے جس کا ایک بچہ جیل میں پیدا ہوا ۔ جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ تفتیش کرنے والے بھی اصل مجرم اور ذریعے تک نہیں پہنچتے، کیس کو ایسے ہی چھوڑ دیتے ہیں ۔

عدالت نے مقدمے کی سماعت میں وقفہ کرتے ہوئے سرکاری وکیل اور وکیل صفائی کو ہدایت کی کہ اس پر دیگر عدالتی فیصلے بھی پڑھ کر آئیں اس کا فیصلہ کرتے ہیں ۔ ساڑھے بارہ بجے جب دیگر تمام مقدمات کی سماعت مکمل کر لی گئی تو یاسمین بی بی کی اپیل دوبارہ سنی گئی ۔

جسٹس مظہر عالم نے وکلا سے پوچھا کہ کیا ملزمہ کوئی فائدہ پہنچتا ہے؟ سرکاری وکیل نے کہا کہ لیبارٹری کی رپورٹ کو چیلنج نہیں کیا گیا یہ بھی مسئلہ ہے تاہم چونکہ تمام پیکٹس کا الگ الگ تجزیہ نہیں کیا گیا اس لئے شک کا فائدہ دیا جا سکتا ہے ۔ جسٹس گلزار احمد نے وکیل سے کہا کہ وہ قانون بتائیں جس کے تحت لیب میں تجزیہ کرتے ہوئے منشیات کی مقدار کا لکھا گیا ہے کہ کتنی مقدار استعمال کی جائے ۔

اس کے بعد ججوں نے آپس میں مشاورت کی ۔ بنچ کے سربراہ جسٹس گلزار احمد نے حکم لکھوایا کہ تفصیلی وجوہات بعد میں تحریری کی جائیں گی، سزا کے خلاف یہ اپیل منظور کی جاتی ہے اور لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے، سزا ختم کی جاتی ہے، یاسمین بی بی اگر کسی اور کیس میں مطلوب نہیں تو فوری رہا کیا جائے ۔

فیصلے لکھوانے کے بعد بائیں جانب بیٹھے فوجداری قانون کے ماہر جسٹس مظہر عالم نے بنچ کے سربراہ سے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم نہیں ہوگا، سزا تو وہ گزار چکی ہے، سزا کم کرنے کا فیصلہ دیں ۔

جسٹس گلزار احمد نے دوبارہ فیصلہ لکھوایا جس کی ساتھی جج ساتھ ساتھ تصحیح کراتے رہے، یاسیمین بی بی کی اپیل جزوی منظور کی جاتی ہے، سزا پانچ سال سے کم کی جاتی ہے، یاسمین بی بی تخفیف ملا کر تین سال سزا گزار چکی ہے ۔ وکیل نے لقمہ دیا کہ سزا کے ساتھ جرمانہ بھی ہوا تھا اگر وہ ختم نہیں ہوگا تو مزید چار ماہ دس دن جیل میں گزارے گی اس کو بھی حکم نامے میں شامل کیا جائے ۔ وکیل نے کہا کہ چرس کی مقدار ایک کلو کر دی جائے تو سزا ایک سال نو ماہ ہو جائے گی اس طرح اس کی جرمانے کی عدم ادائیگی والی سزا بھی مکمل سمجھی جائے گی ۔

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ہم نے ایک کلو کی بنیاد پر ہی سزا میں تخفیف کا حکم لکھوایا ہے ۔

عدالت کے باہر وکیل نصر من اللہ نے اس نمائندے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یاسمین بی بی کو دو جنوری سنہ 2017 کو اٹک پل پر پشاور سے منشیات لاتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا، ٹرائل کورٹ نے 10 جون 2017 کو پانچ سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ لاہور ہائیکورٹ نے 13 مارچ 2018 کو سزا کے خلاف یاسمین کی اپیل خارج کر دی تھی ۔

وکیل کو جسٹس مقبول باقر کا جملہ یاد دلایا تو مسکراتے ہوئے بولے کہ یاسمین بی بی کے بچوں کیلئے یہ کیس لڑا ہے، پشاور کچہری میں ایک منشی نے یہ کیس دیا تھا ۔

سپریم کورٹ سے اے وحید مراد

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے