پاکستان24 متفرق خبریں

کوئی بچا ہے یا سب بحریہ ٹاؤن سے ملے ہوئے ہیں؟

نومبر 29, 2018 6 min

کوئی بچا ہے یا سب بحریہ ٹاؤن سے ملے ہوئے ہیں؟

Reading Time: 6 minutes

عدالت عظمٰی نے بحریہ ٹاون کراچی کے خلاف دیے گئے عدالتی فیصلے پر مکمل عمل درآمد کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ جب تک عدالتی احکامات پر عمل نہیں ہوتا بحریہ ٹائون کی جانب سے دائر متفرق درخواستوں کو نہیں سنا جائے گا ۔جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں تین رکنی عمل درآمد بنچ نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے زمین کی قیمت کا تعین نہ کرنے پر تشویش کا اظہار کیا اور بحریہ ٹائون کی زمین کی قیمت کا تعین کرنے کی ہدایت کی اور آبزرویشن دی کہ جب تک زمین کی قیمت کا تعین نہیں ہوتا کیس کو آگے نہیں لے جایا جاسکتا ۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریما رکس دیے کہ عدالت کے احکامات پر عمل نہ کرنے سے بحریہ ٹائوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگا، زمین کی قیمت کا تخمینہ لگا کر نہیں دیا جائے تو اس کا یہی مطلب لیا جائے گا کہ فیصلے پر عمل نہیں ہوا۔ فاضل جج نے کہا کہ اگر آڈیٹر کی رپورٹ کا جائزہ لیا جائے تو زمین کی قیمت کا اصل تخمینہ مل جائے گا لیکن یہ کام ہم خود نہیں کریں گے ضرروت پڑی تو تھرڈ پارٹی آڈٹ کرائیں گے لیکن اس کا نقصان بحریہ ٹائون کو ہوگا۔

سپارکو کی طرف سے بحریہ ٹائون کی حدودکا تعین نہ کرنے پر جسٹس شیخ نے کہا کہ کوئی پاکستان میں بچا ہے یا سب بحریہ ٹائون کے ساتھ ملے ہوئے ہیں ۔ عدالت نے سپارکو کو بحریہ ٹائون کراچی کی حدود اربعہ کے تعین اور بحریہ ٹائون کے لے آئوٹ پلان کا تقابلی جائزہ پیش کرنے جبکہ بحریہ ٹائون کے لے آئوٹ پلان میں موجود روڈ اور گرین ایریا کی وضاحت کرنے کی ہدایت کی ۔ عدالت نے قرار دیا کہ نیب نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بحریہ ٹائون نے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی ہے، ایڈوکیٹ جنرل سندھ نیب کی رپورٹ کا جائزہ لے کے بتائے کہ واقعی عدالتی احکامات کی خلاف ورزی ہوئی ہے یا نہیں، اگر خلاف ورزی ہوئی ہے تو اس ضمن میں ایک درخواست جمع کی جائے۔

بحریہ ٹائون نے سپریم کورٹ میں نو اعشاریہ سات ارب روپیہ کا چیک جمع کیا جبکہ عدالت نے رجسٹرار کو رقوم جمع کرانے کے لئے اکاوئنٹ کھولنے کی ہدایت کی اور قرار دیا کہ بحریہ ٹاون لوگوں سے وصولیوں سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کرے ۔ دوران سماعت بحریہ ٹائون کراچی میں سرمایہ لگانے والے ایک شخص نے جب روسٹرم پر آنے کی اجازت مانگی تو عدالت نے اس پر برہمی کا اظہار کیا اور آبزرویشن دی کہ امید ہے اس کے پیچھے بحریہ ٹائون نہیں ہوگا ۔ مذکورہ شخص نے دوبارہ مداخلت کی تو جسٹس شیخ عظمت سعید نے بحریہ ٹائون کے وکیل علی ظفر کو کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ ان لوگوں کو آپ لے کر آئے ہیں لیکن ہم مداخلت برداشت نہیں کریں گے اور پوری عدالت خالی کرا کر ان کیمرہ سماعت کریں گے، بحریہ ٹائون عدالت پر دبائو ڈالنا چھوڑ دیں ۔

علی ظفر نے کہا کہ بحریہ ٹائون کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ اس شخص نے کہا کہ ان کی عمر 62 سال ہو چکی ہے اور وہ خود آیا ہے تاکہ اپنی بات کر سکے ۔ علی ظفر نے بتایا کہ عدالتی حکم پر عمل ہو رہا ہے، عدالتی حکم کے بعض حصوں پر عمل درآمد کر لیا ہے، عدالت نے بحریہ ٹاون کا مکمل لے آوٹ پلان طلب کیا تھا جو جمع کرا دیا ہے، جسٹس شیخ عظمت سعید نے پوچھا کہ کیا الاٹیز سے لی گئی رقم کی تفصیلات جمع کرا ئی ہے اور زمین کی قیمت کیا ہے؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ الاٹیز سے کی گئی وصولیوں کی تفصیلات جمع نہیں کر اسکے، زمین کی قیمت کتنی ہے تفصیلات فراہم نہیں کی گئی۔

جسٹس شیخ عظمت سعیدنے کہا کہ اگر زمین کی قیمت اور الاٹیز سے لی گئی وصولی کی تفصیلات فراہم نہ کی گئی تو فیصلے پر عملدرآمد کیسے ہو گا۔ علی ظفر نے وضاحت کرنا چاہی تو جسٹس شیخ نے کہا کہ یہ عمل درآمد بنچ ہے اور عدالت کے آرڈر میں زمین کی قیمت کا تعین کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، عدالت کے حکم پر عمل کیا جائے لیکن آپ عمل درآمد نہیں کرنا چاہتے ۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ بحریہ ٹائون نے پلاٹس بیچے ہیں جس میں ڈویلپمنٹ چارجز کے علاوہ زمین کی قیمت بھی ہے جبکہ کمرشل اور رہائشی زمین کی قیمت الگ الگ ہے ۔ جسٹس شیخ نے کہا لاڈ پیار سے کہتے ہیں عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کرٰیں، جو چیز آپ کی بس میں نہیں اس کا بوجھ آپ پر نہیں ڈالیں گے لیکن آرڈر پر عمل درآمد کرنا عدالت کی مجبوری ہے، آرڈر پر عمل درآمد کے سارے طریقے ہمیں آتے ہیں لیکن اس پر وقت لگے گا جس کا نقصان بحریہ ٹائون ہی کو ہوگا ۔ فاضل جج نے کہا عدالت کے آرڈر پر عمل درآمد الہ دین کے چراغ اور کھل جا سم سم سے ہوگا۔

علی ظفر نے کہا کہ ہم نے نو اعشاریہ سات ارب روپیہ جمع کردیا لیکن رجسٹرار نے ابھی تک اکاوئنٹ نہیں کھولا، بحریہ ٹائون نے زمین کی قیمت نہیں لی ۔ بحریہ ٹائون کے دوسرے وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ زمین کی ایک معقول قیمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جس پر جسٹس شیخ نے کہا لیکن بحریہ ٹائون کا تو موقف ہے کہ زمین کی قیمت نہیں لی گئی، جسٹس فیصل عرب نے کہا بحریہ ٹائون نے خالی پلاٹس بھی بیچے ہیں، جسٹس شیخ نے کہا زمین کی قیمت کا تخمینہ جمع کیا جائے اس کے بعد دیکھیں گے کہ یہ زمین بیچی جاسکتی تھی یا نہیں۔

نیب کراچی نے رپورٹ دی اور عدالت کو بتایا کہ بحریہ ٹائون نے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی ہے،زمین کا تبادلہ 1912 کے قانون اور 1993 کے ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی ایکٹ کے خلاف ہے۔جسٹس شیخ نے کہا ہم نے لے آئوٹ پلان مانگا تھا جس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ بحریہ ٹائون کے پاس 18337 ایکڑ زمین ہے جس میں 7068 ایکڑ تبادلے کی زمین ہے، وکیل علی ظفر نے کہا کہ بحریہ ٹاون نے ملیر ڈویلپمینٹ اتھارٹی کے علاوہ بھی زمین خریدی ہے اور ہمارے پاس وہاں پر ایم ڈی اے کی زمین کے علا وہ جگہ بھی موجود ہے ۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ہم نے فیصلے پر عملدرآمد کرانا ہے، کیا بحریہ ٹاون زمین کی قیمت سے متعلق تفصیلات فراہم نہیں کر سکتا، بحریہ ٹاون نے تفصیلات فراہم نہیں کرنی تو بتا دے، عدالت کسی تیسرے فریق سے بحریہ کے اکاونٹس کا آڈٹ کرالے گی، بحریہ ٹاون اکاونٹس کی تفصیلات فراہم کر دے ورنہ ہم خود پتہ کروا لیں گے، جب تک بحریہ ٹاون تفصیلات فراہم نہیں کرتا آگے نہیں بڑھ سکتے، بحریہ ٹاون نے تفصیلات فراہم نہیں کرنی تو ہم حکم جاری کر دینگے، بحریہ ٹاون کوئی اور کام کر لے یا دکان چلا لے ۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ بحریہ ٹاون میں کمرشل اور رہائشی پلاٹس کے کیا ریٹ ہیں یہ بحریہ ٹاون نے بتانا ہے۔،بحریہ ٹان کے وکیل نے کہا کہ الاٹیز سے وصولی کرنے بارے بیان حلفی جمع کرا دیا ہے، بیان حلفی کی کاپی سندھ حکومت کو بھی فراہم کر دی ہے، ملک ریاض کا بیان حلفی جمع کرا دیا ہے ۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ہم آپ کو پیار سے کہتے ہیں عدالت کے حکم پر عمل کریں، سمجھاتے ہیں کیسے عمل کرنا ہے پھر بھی نہیں ہوتا۔

بحریہ ٹاون کے دوسرے وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ کتنی زمین فروخت کی اور کتنی وصولی کی تفصیلات فراہم کر چکے ہیں ، اندازے سے بتا سکتے ہیں کتنی وصولی کی، اضافی رقم سے زمین پر تعمیرات کی ہے ۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ بحریہ ٹاون کراچی کا اصل رقبہ کتنا ہے ابھی تک پردہ فاش نہیں ہوا ۔ نیب نے عدالت کو بتایا کہ بحریہ ٹاون کے مالکان اور افسران تفتیش میں شامل نہیں ہوئے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ نیب 12000 ایکڑ بتا رہا ہے، بحریہ ٹاون نے 18000 ایکڑ رقبہ بتایا، نیب کو تو اس سے آگے جانا چاہیے تھا ۔ ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ زمین کی قیمت کا تعین پرائس کمیٹی نے کرنا ہے جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ یہ تو ابھی ہم نے آپ سے پوچھا ہی نہیں،سندھ حکومت قیمت کا تعین کرے ہم نے منع نہیں کیا ہے لیکن عدالت سندھ حکومت کی طرف سے مقرر کردہ قیمت کی پابند نہیں ۔ جسٹس فیصل عرب نے نے ایڈوکیٹ جنرل سندھ سے کہا کہ آپ نے بحریہ ٹاون کو زمین بیچی نہیں تھی تبادلہ کیا تھا،ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ ہم نیب سے ڈر رہے ہیں،قیمت مقرر کرنے کی کمیٹی میں نیب کا نمائندہ بھی شامل کیا جاسکتا ہے تاکہ بعد میں نیب کو اس پر اعتراض نہ ہو ۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ عدالت قیمت کا تعین خود کرے گی ،سندھ حکومت کی ناک کے نیچے سب کچھ ہوتا رہا ،معاملہ اعتماد کا ہے۔ سپارکو کے ڈائریکٹر نے رپورٹ دی کہ بحریہ ٹائون کراچی کے پاس 16778ایکڑ زمین ہے اور 4622 ایکڑ پر ضافی تعمیرات ہوئیں جس پر جسٹس شیخ نے کہا کہ اگر ایک انچ اضافی تعمیرات ہوئیں تو نوٹس دیے بغیر بلڈوزر جائے گا اور تعمیرات گرا دی جائیں گی ۔

عدالت کے استفسار پر ڈائریکٹر سپارکو نے کہا کہ سروے اف پاکستان سے نقشہ ملے گا تو حدود اربعہ کا تعین ہوگا جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا ۔ جسٹس شیخ نے کہا عجیب بات ہے سپارکو کو تو یہ پتہ پے کہ بحریہ ٹائون کے قبضے میں کتنی زمین ہے لیکن یہ پتہ نہیں کہ حدود کیا ہے، شمال میں کیا ہے جنوب میں کیا ہے۔جسٹس شیخ نے کہا کہ کوئی پاکستان میں بچا ہے یا سب بحریہ ٹائون کے ساتھ ملے ہوئے ہیں ۔ تفصیلات جاننے کے لئے پاکستان سے باہر کسی کو بلا لے یا سیکرٹری دفاع کو طلب کریں؟ ۔جسٹس شیخ نے کہا کہ ضرورت پڑی تو ملک سے باہر بھی کسی کو بلایا جاسکتا ہے۔ڈائریکٹر سپارکو نے وضاحت دینا چاہی تو جسٹس شیخ نے کہا آپ چھوڑ دیں ، آپ سے یہ کام نہیں ہو رہا ۔ فاضل جج نے ڈائریکٹر سپارکو سے استفسار کیا کہ یہ تو باتئے کہ آپ تنخواہ کس سے لیتے ہو؟ ہم سپارکو کے سربراہ کو بلا لیتے ہیں۔عدالت کے استفسار پر ڈائریکٹر سپاکو نے کہا کہ میجر جنرل ندیم احمد ندیم سپارکو کے چیئر مین ہیں۔جسٹس شیخ نے کہا کہ ہم نے سوچا تھا کہ کیس کو آگے لے جائیں گے لیکن سپارکو کو یہ پتہ نہیں کہ بحریہ ٹائون کی زمین کہاں سے شروع ہو کر کہاں پر ختم ہوتی ہے ۔ عدالت نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے قرار دیا کہ صرف عمل درآمد کی حد تک معاملہ دیکھا جائے گا اگر کسی کا کوئی اور مسئلہ ہے تو متعلقہ فورم سے رجوع کریں ۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے