پاکستان24 متفرق خبریں

سیدھی بات کریں پیسے دینے ہیں یا نہیں، چیف جسٹس

دسمبر 3, 2018 3 min

سیدھی بات کریں پیسے دینے ہیں یا نہیں، چیف جسٹس

Reading Time: 3 minutes

سپریم کورٹ نے پینے کا پانی بیچنے والی کمپنیوں کے مالکان سے کہا ہے کہ وہ زمین سے نکالے پانی کی قیمت ادا کریں اور اس کیلئے نظام وضع کریں ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے کہا ہے کہ سرکار کو پانی کا ایک پیسہ ادا نہ کرنے والے 50 روپے لٹر بوتل بیچتے ہیں ۔

عدالت میں معائنہ کمیشن کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے آبی ماہر نے بتایا کہ 45 کمپنیاں ہیں اور ماہانہ سات ارب لٹر پانی زمین سے نکالا جاتا ہے، پانی صاف کرنے کیلئے زہریلے کیمیکل کی زیادہ مقدار استعمال کی جاتی ہے، صفائی کے دوران ضائع ہونے والے پانی کو دوبارہ زمین میں ڈالا جاتا ہے جو زیر زمین آبی ذخائر کی تباہی کا سبب بن رہا ہے ۔

ماہر کی رپورٹ کے مطابق کمپنیوں کے پاس پانی ٹیسٹ کرنے کا نظام نہیں، کراچی میں زیر زمین پانی کی سطح 1300فٹ تک گر چکی ہے، پنجاب میں نہریں خشک ہو چکی ہیں، سیوریج کے پانی سے سبزیاں اگ رہی ہیں، آلودہ پانی بغیر ٹریٹمنٹ زیرزمین بہا دیا جاتا ہے، آبی ماہر نے بتایا کہ سندھ میں صنعتیں نہری اور دریائے سندھ کا پانی مفت استعمال کر رہی ہیں، کوئی صنعت پیسہ دے بھی رہی ہے تو وہ خزانے میں نہیں جاتا۔

ایک کمپنی کے وکیل شاہد حامد نے اعتراض کرنا چاہا تو چیف جسٹس نے پنجابی میں کہا کہ انگریزی میں بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے، مینوں زیادہ انگریزی سمجھ نئیں آندی، پنجابی اچ گل کرو، تساں پیسے دینے این کہ نئیں، سیدھی گل کرو ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سات ارب لٹر پر فی لٹر روپیہ وصول کریں تو ڈیم کیلئے پیسے ایک سال میں پورے ہو جائیں ۔ پانی کی کمپنیاں پیر تک اپنے معاملات درست کر لیں، پیر تک معاملات درست نہ ہوئے تو فیکٹریوں کو بند کر دیں گے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ منرل واٹر کمپنیاں پاکستان کو ایتھوپیا بنا دیں گی، منرل واٹر کمپنیاں قوم سے فراڈ کر رہی ہیں، لوگوں کو منرل واٹر کمپنیوں کا بائیکاٹ کرنا چاہئیے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک روپے ٹیکس فی لیٹر کے حساب سے ساڑھے سات سو ارب روپے چند ماہ میں بنتے ہیں، ایک ہزار ارب اعتزاز احسن کے دوسرے موکل سے لوں گا ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر یہ دونوں رقوم مل جائیں تو دونوں ڈیمز کیلئے کسی اور سے پیسے لینے کی ضرورت نہیں، منرل واٹر کمپنیوں نے جتنا پانی استعمال کیا اس کے پیسے دینے پڑیں گے، اربوں روپے کا پانی منرل واٹر کمپنیوں نے چوری کیا ۔ ایک کمپنی کے وکیل شاہد حامد نے کہا کہ ہم نے پانی چوری نہیں کیا، اگر سرکار نے ٹیکس نہیں لگایا تو ہماری غلطی نہیں ۔چیف جسٹس نے کہا کہ گڑھے کے پانی کو فراڈ کے زریعے منرل واٹر کے طور پر فروخت کیا جارہا ہے، آج شام پانچ بجے منرل واٹر کمپنیوں سے متعلق میٹنگ ہوگی، اجلاس میں منرل واٹر کمپنیوں کے اعتراضات سمیت ٹیکس ادائیگیوں دیگر معاملات کا جائزہ لیا جائے گا ۔ ایک منرل واٹر کمپنی کے مالک کی کینٹ میں سولہ کنال کی کوٹھی ہے، اس میں بینٹلے بھی کھڑی ہے ۔

عدالت نے ہدایت کی کہ اجلاس میں چاروں ایڈووکیٹ جنرلز، وفاق اور منرل واٹر کمپنیوں کے نمائندے بھی شریک ہوں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ صرف قرشی اور گورمے کا پانی پینے کے قابل ہے، منرل واٹر کمپنیاں بند ہونے سے کوئی پیاسا نہیں مرے گا ۔ وکیل شاہد حامد نے کہا کہ فیکٹریاں لگائے گئے ٹیوب ویل سے نکالے گئے پانی کا معاوضہ ادا کرنے کو تیار ہیں، وہاں میٹر لگائے جائیں گے تو کرپشن ہوگی، ضائع ہونے والے پانی پر معاوضہ ادا نہیں کیا جاسکتا ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اربوں روپے کا پانی چوری کر گئے اور لوگوں کو ایک بوند پانی میسر نہیں، سات ارب لٹر روز کا پانی استعمال کر رہے ہیں، اس پر ایک پائی بھی ادا نہیں کی، سیدھی اور اردو میں بات کریں، یا پنجابی میں بتا دیں کہ کیا آپ نے پانی کے پیسے دینے ہیں یا نہیں بتائیں ۔ وکیل نے کہا کہ ہم پیسے دینے کو تیار ہیں،

چیف جسٹس نے کہا کہ جب اربوں روپے کا پانی استعمال کیا تب خیال نہیں آیا، پانی کو آلودہ کر کے واپس زیر زمین بھیج دیتے ہیں، شاھد حامد نے بتایا کہ اب وہ پانی زیر زمین نہیں جاتا بلکہ زراعت کے لیے استعمال ہو رہا ہے،

جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ کینیڈا میں سب سے زیادہ پانی کے وسائل ہیں لیکن وہاں بھی قیمت ہے، وہاں پانی اگر مفت میں بھی ہو تو 5000 سال تک بھی پانی ختم نہ ہو، اس کے باوجود انہوں نے استعمال ہونے والے پانی کا معاوضہ طے کر رکھا ہے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ باقی بچ جانے والے پانی کی ہیئت تبدیل ہوجاتی ہے،

چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے کہ آپ پاکستان کو اتھوپیا بنانا چاہتے ہیں، آپ کہتے ہیں کہ بوتل میں بھرے ہوئے پانی کا معاوضہ ادا کریں گے ۔

عدالت کو بتایاگیا کہ پانی کی ٹیسٹنگ کے لئے زائد المعیاد کیمیکل استعمال کررہے ہیں، لاشوں کو لگایا جانے والا کیمیکل استعمال کیا جاتا ہے ۔ آبی ماہر نے بتایا کہ ایک گلاس پانی کے لئے تین گلاس پانی کمپنیاں ضائع کیا جاتا ہے، قدرتی منرل نکال کر مصنوعی منرلز ڈال دیئے جاتے ہیں، یہ جھوٹ ہے کہ کمپنیاں منرل ڈالتی ہیں منرلز قدررتی پانی میں موجود ہوتے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں ان کمپنیوں سے کوئی ہمدردی نہیں ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے