کالم

یہ بھی کارگل ہے

دسمبر 7, 2018 4 min

یہ بھی کارگل ہے

Reading Time: 4 minutes

اظہر سید
فوج ہماری ہے یہ ملک بھی ہمارا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر پروفیشنل فوجی ہیں ۔تمام کور کمانڈر بھی محب وطن اور پروفیشنل ہیں ،لیکن تمام تر حب الوطنی کے باوجود فوجی کمانڈر ماہر معیشت نہیں ہوتے اور نہ ہی سیاستدانوں کی طرح عوام کے نباض ہوتے ہیں ۔حب الوطنی کی سوچ سے جو کچھ بھی کیا گیا اس کا خمیازہ پاکستان بھگت رہا ہے اور ملک کا اقوام عالم میں تماشا بن گیا ہے ۔جنرل آصف غفور نے پریس بریفنگ میں جو کچھ کہا اس کا لب لباب یہ ہے فوج دفاعی پوزیشن میں آچکی ہے اور مزید چھ ماہ چاہتی ہے تاکہ ایجنسیوں کا نیا فخر کچھ ڈلیور کر سکے اور ادارہ سرخرو ہو سکے ۔مرغا انڈے نہیں دیتا خیبر پختونخواہ میں پانچ سال حکومت کرنے کا موقع فراہم کیا گیا تھا بدترین کارکردگی کے باوجود ایک نااہل فراڈیئے کو حکومت کیوں دی گی جب اس کا احتساب ہو جائے گا تو پوری قوم بھی دل و جان سے فوج کے پیچھے کھڑی ہو جائے گی ۔یہ ہماری فوج ہے ۔ہمارے گلی محلوں میں رہنے والے اس فوج میں شامل ہوتے ہیں اور وطن کی حفاظت کیلئے نقد جانیں قربان کرتے ہیں ۔ناقص فیصلوں سے جب فوج کو گلیوں اور بازاروں میں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ہر پاکستانی کو تکلیف ہوتی ہے ۔
فوج رہے گی پاکستانی فوج نہیں ہو گی تو دشمن کی فوج ہو گی ۔فوج کی عزت تحفظ اور وقار کی حفاظت کرنا خود اپنی عزت اور وقار کی حفاظت کرنا ہے ۔
جنرل غفور نے کہا پی ٹی ایم اے والے حدود کراس کر رہے ہیں اور وہ اس سطح پر نہ آئیں جب حکومت کو اتھارٹی استمال کرنا پڑے ۔یہ بہت بڑی غلطی کریں گے اگر اتھارٹی استمال کریں گے ۔منظور پشین اور حکیم اللہ محسود میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔طالبان دہشت گرد تھے انہیں عوامی حمائت حاصل نہیں تھی ۔وہ جی ایچ کیو پر حملہ کرتے تھے اور جوانوں کے سروں سے فٹبال کھیلتے تھے ۔منظور پشین کو عام پشتونوں کی حمائت حاصل ہے اور یہ دہشت گرد بھی نہیں ۔قبائیلی علاقہ جات اور کے پی کے میں دہشت گردی ختم ہو گئی ہے وقت کے ساتھ ساتھ منظور پشین کے مطالبات بھی کمزور ہوتے جائیں گے ۔اگر کہیں اتھارٹی استمال کرنے کی غلطی کر لی تو پھر اس کی بھاری قیمت ہو گی یاد رکھیں اس طرح کی ایک ادائیگی سے مشرقی پاکستان الگ ہو چکا ہے ۔
فوج کے خلاف نعرے صرف منظور پشین کے جلسوں میں نہیں لگتے پنجاب کے مختلف شہروں میں بھی لگ چکے ہیں،بلوچستان میں بھی لگ چکے ہیں اور لگ رہے ہیں ۔بندوق سے ان نعروں کو روکنے کی بجائے ان اسباب کو دور کرنے کی ضرورت ہے جنکی وجہ سے نعرے لگتے ہیں ۔فوجی حکمت سازوں کو یقینی طور پر خبر ہونا چاہے یہ نعرے کیوں لگنا شروع ہوئے ہیں اور اس دور میں لگنا شروع ہوئے ہیں جب افواج پاکستان نے بے پناہ قربانیوں کے بعد ملک کو دہشت گردی سے نجات دلا دی ۔
جب سیاسی امور میں مداخلت ہو گی تو سیاسی جماعت کے حواریوں کی طرف سے ردعمل بھی آئے گا ۔کوئی پروفیشنل فوج سیاسی امور میں مداخلت نہیں کرتی اور عوامی تنقید سے محفوظ رہتی ہے ۔
جنرل غفور نے” باریاں” اور جوڈیشل سسٹم کو بھی اندرونی فالٹ لائین قرار دیا ہے ۔باریاں عوام دیتے ہیں آئین اور قانون فوج کو کوئی ایسا اختیار نہیں دیتے وہ باریاں روکنے کیلئے اپنی بندوق کی طاقت اور اپنے اختیارات استمال کریں ۔جنرل شجاع پاشا نے ایک مرتبہ صحافیوں کو آف دی ریکارڈ بریفنگ میں مونس الہی بلاول بھٹو اور مریم نواز کے مستقبل کے اقتدار پر دکھ اور افسوس ظاہر کیا تھا۔ جنرل غفور کی طرف سے باریوں کو فالٹ لائین قرار دینا ادارے کی وہی سوچ ہے ۔اگر یہ سوچ مکمل تجزیہ کے بعد اپنائی گئی ہے تو پھر پرویز الہی کو اسپیکر پنجاب اسمبلی کیوں بنایا گیا اور مونس الہی کو کسطرح تبدیلی کے عمل میں طاقتور حکومتی حثیت حاصل ہے ؟
اگر جمہوریت رکھنا ہے تو پھر عوام کو فیصلہ کرنے کا اختیار ہے وہ خود ہی مسترد کر دیں گے اجتماعی دانش کے ساتھ فراڈ ممکن نہیں ۔بھارت میں فوج سیاسی عمل سے باہر ہے دیکھ لیں بھارتی معیشت کہاں کھڑی ہے اور پاکستانی معیشت کہاں ہے ۔ترکی میں فوج سیاسی عمل سے باہر ہوئی دیکھ لیں ترکی کی معیشت کہاں ہے اور آپ کی معیشت کہاں ہے ۔
جوڈیشل سسٹم بھی ایک فالٹ لائین ہے لیکن تجزیہ کرلیں اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے ۔نظریہ ضرورت سے ،بھٹو کی پھانسی سے ،فوجی جنرلوں کی طرف سے ججوں کو پی سی او کے حلف دلانے سے ،جسٹس ارشاد کی طرف سے ائین میں ترمیم کا حق دینے سے لے کر وزیر اعظم گیلانی اور وزیراعظم نواز شریف کو فارغ کرنے تک کے سفر میں فیصلہ کرلیں ججوں کے منہ کو کس نے خون لگایا اور کن کی وجہ سے جوڈیشل سسٹم فالٹ لائین بنا۔
پاکستان 20 کروڑ لوگوں کی ایٹمی ریاست ہے اس کے امور جنرلوں کی دانش اور حب الوطنی پر کسطرح چھوڑے جا سکتے ہیں ۔ کارگل حب الوطنی کے جذبہ سے کیا گیا تھا اس کے نتائج کیا نکلے ؟ کیوں چھ ماہ ملک و قوم کا بیڑا غرق کرنے کا موقع دیا جائے تین ماہ میں جو کچھ ہوا ہے اور پانچ سال کے پی کے میں جو کچھ ہوا تھا وہ تجربہ کیلئے کافی نہیں تھا ۔غلطی درست کرنے کا وقت ہے پاکستانی کی مسلح افواج کو ہمارے منہ میں خاک اگر نقصان پہنچا تو وہ معاشی تباہی اور چاروں صوبوں میں فوج کے خلاف جذبات پیدا ہونے سے پہنچے گا ۔سیاست آپ کا میدان نہیں اس کو چھوڑ دیں اور خود کو پیشہ ورانہ امور تک محدود کر لیں یا پھر سیدھا مارشل لا لگائیں اور جمہوریت ختم کر دیں تاکہ باریاں نہ لگ سکیں ۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے