کالم

عام انتخابات 2018 کے متنازع بننے کے اسباب!

دسمبر 10, 2018 12 min

عام انتخابات 2018 کے متنازع بننے کے اسباب!

Reading Time: 12 minutes

عبدالجبارناصر
ajnasir1@gmail.com

ابتدائیہ
پاکستان کی انتخابی تاریخ کو مدنظر رکھا جائے تو شاید ہی کسی انتخاب کو شفاف اور منصفانہ قراردیا گیا ہو، مگر سب سے متنازع 25جولائی 2018 ء کے انتخابات رہے اورانتخابی عمل میں شریک شاید ہی کسی جماعت یا امیدوارنے انتخابی بے قاعدگیوں کی شکایت نہ کی ہو اور یہاں تک کہ ملکی تاریخ میں پہلی بارپارلیمنٹ کو 30رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کرنا پڑی۔کمیٹی کا اعلان 15اکتوبر2018ء اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کیا۔کمیٹی میں قومی اسمبلی کے 20اور سینیٹ کے10ارکان شامل ہیں،جبکہ کمیٹی میں حکومت اوراپوزیشن کی برابر نمائندگی ہے۔اگرچہ اب تک کمیٹی کے قواعد وضابطہ کار پر اتفاق نہیں ہواہے،مگراپوزیشن جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ پولنگ دن سے قبل،پولنگ ڈے اور بعد از پولنگ تمام بے قاعدگیوں کا جائزہ لیکر رپورٹ مرتب کی جائے، جبکہ حکومت صرف پولنگ ڈے تک رہنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کمیٹی کے قیام کے پونے 2ماہ بعد بھی ضوابط کارطے نہ ہوسکے۔کمیٹی کے رکن ایم کیوایم کے سید امین الحق کے مطابق ضوابط کار کے لیے 8رکنی ذیلی کمیٹی وفاقی وزیر شفقت محمود کی سربراہی میں قائم کرکے 14دن میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی، مگر اس مدت میں یہ کمیٹی قوائد ضوابط کار تیار کرنے میں ناکام رہی اور امکان یہی ہے کہ ایک بار پھر کمیٹی کو ٹائم دیا جائے گا اور اس کا فیصلہ ہم مین کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں کریں گے۔مسلم لیگ(ن)کے خواجہ طارق نزیر کے مطابق پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے اب تک پولنگ ڈے سے قبل،پولنگ ڈے اور بعد از پولنگ ڈے تمام بے قاعدگیوں کی مبینہ تحقیق کے کام میں زیادہ پیش رفت نہ ہوسکی ہے۔ لیکن اپوزیشن جماعتوں کا مطالبہ اپنی جگہ ہے۔اس رپورٹ کی تیاری میں عام انتخابات 2018ء کے متنازع ہونے کے کئی اسباب ہیں جن میں سے چندذیل ہیں۔

مردم شماری پراعتراضات
مردم شماری کے نقشوں کی تیاری،بلاک بندی، سرکل بندی اور چارج بندی کے دوران سیاسی اورانتظامی مداخلت الزامات بھی سامنے آئے ہیں۔ اس ضمن میں ایم کیوایم پاکستان ایک سے زائد بار یہ دعویٰ کرچکی ہے کہ کراچی میں ایک طرف آبادی کم کی گئی، دوسری مردم شماری کے نقشوں،بلاک ، سرکل اور چارج بندی کے دوران دانستہ طورپرشہری علاقوں کو دہی علاقوں میں شامل کیاگیا۔دوران مردم شماری آبادی کے ایک بڑے حصے کو شمار نہ کرنے کا الزام کراچی میں شدومد سے لگایاگیاہے ،بلکہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، پاک سرزمین پارٹی،مہاجر قومی موومنٹ اوردیگرکچھ سیاسی اورسماجی گروپوں کا الزام ہے کہ کراچی کی آبادی تقریبا ایک کروڑ کم دکھائی گئی ہے اور ایم کیوایم پاکستان نے 16نومبر2017ء کو ملک میں نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے انتخابی اصلاحات ایکٹ2017ء کے ترمیمی بل کی منظوری کے وقت حمایت کے لیے مسلم لیگ(ن)کی حکومت کے سامنے اورعام انتخابات 2018ء کے بعد 11اگست 2018ء کو تحریک انصاف کی حمایت کے وقت بھی سندھ میں 5فیصد مردم شماری کی جانچ پڑتال کی شرط رکھی اور دونوں حکومتوں نے اس شرط کو تسلیم کیا، مگر بعد از انتخاب ہونے والے اس وعدے پرتحریک انصاف کی حکومت نے عمل نہیں کیاہے۔ایم کیوایم پاکستان کے سید امین الحق کے مطابق مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے حوالے سے ہم آج بھی اپنے مطالبے پرقائم ہیں۔

حلقہ بندیاں اورآئین
آئین پاکستان کے آرٹیکل 51(5)کے مطابق نئی حلقہ بندی آبادی کی بنیاد پر ہونی چاہیے اورالیکشن کمیشن آف پاکستان نے 5 مارچ 2018ء کو انتخابی ایکٹ 2017 ء کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندیوں کے لیے آبادی کی اوسط حد مقرر کردی۔ جس میں خیبر پختونخوا میں قومی اسمبلی کا حلقہ7 لاکھ 82 ہزار 650۔ اسلام آباد میں 6لاکھ 68 ہزار 857۔ پنجاب میں7 لاکھ 80 ہزار 230۔سندھ میں7 لاکھ 85 ہزار 17اور بلوچستان میں 7 لاکھ 71 ہزار 525 افرادرکھا گیا۔صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے خیبر پختونخوا کا صوبائی حلقہ3لاکھ8 ہزار317۔پنجاب میں3 لاکھ 70 ہزار 429۔سندھ میں3 لاکھ 68 ہزار410 اور بلوچستان میں 2 لاکھ 42 ہزار 54 رکھا گیا۔ایکٹ 2017ء کے قوائد وضوابط کے مطابق ایک ہی کیٹگری یا ایک ہی اسمبلی کے حلقوں میں آبادی کا فرق 10فیصد سے زائد نہیں ہونا چاہئے،مگر الیکشن کمیشن نے اس پر عمل نہیں کیا، مثلاً قومی اسمبلی کا حلقہ این اے262 کیچ (جھل مگسی)بلوچستان، 3لاکھ 86ہزار 255افراد اور قومی اسمبلی کاحلقہ این اے بنوں 11لاکھ 67ہزار 892افراد پر مشتمل ہے ،یعنی این اے 262کے مقابلے میں این اے 35بنوں 201فیصد بڑاحلقہ ہے۔ خیبرپختونخوااسمبلی کا حلقہ پی کے 1چترال کی آبادی 4لاکھ 42ہزار 362 افراد ،جبکہ پی کے 26 لوئر کوہستان کی آبادی 2 لاکھ 2 ہزار913 رکھی گئی اور دونوں میں 120فیصد کا فرق۔پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 34گجرات کی آبادی 4لاکھ 33ہزار794 ، جبکہ حلقہ پی پی 274 مظفر گڑھ کی آبادی 4لاکھ 18ہزار574افراد ہے اور دونوں میں فرق 36فیصد کا ہے۔ سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 35نوشہروفیروز کی آبادی 4لاکھ 29ہزار 980اور حلقہ پی ایس 77ٹھٹھہ کی آبادی 3لاکھ 12ہزار 248ہے اور دونوں میں فرق 37 فیصد ہے۔ بلوچستان اسمبلی کے حلقہ پی بی 17جھل مگسی کی آبادی ایک لاکھ 49 ہزار 225افراد،جبکہ پی بی 24 قلعہ عبداﷲ کی آبادی 4لاکھ 7ہزار 323افراد ہے اور دونو ں میں فرق 172فیصد ہے۔آبادی میں اس فرق کی بنیادی وجہ نئی حلقہ بندیوں کے دوران ضلع کی حد کو کراس نہیں کرنا بتایاگیا،مگر دوسری طرف بلوچستان میں کئی کئی اضلاع پر مشتمل ایک حلقہ بنا یا گیا ہے۔سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کے مطابق یہ درست ہے کہ حلقہ بندیوں میں قواعد و ضوابط کا خیال نہیں رکھا گیا، تاہم اب ہمیں آگے بڑھا چاہئے۔

آبادی اور ووٹرز میں فرق
عام انتخابات 2018ء کے لیے ووٹرز فہرست کے اجرا کے بعد انکشاف ہوا کہ آبادی اور ووٹرز میں بہت زیادہ فرق ہے۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے 28اپریل 2018ء کو ادارہ نورحق میں پریس کانفرنس میں کہاکہ ہم نے کراچی کے 14 ہزار 452 بلاکس میں سے تقریبا ڈھائی ہزار بلاکس کی جانچ پڑتال کی گئی اور آبادی اور ووٹرز کے تناسب کا جائزہ لیا گیا تو اندازہ ہوا کہ 1198 بلاک ایسے ہیں جہاں ووٹرز کا تناسب آبادی کے مقابلے میں بہت کم یا بہت زیادہ ہے۔جبکہ پاکستان میں آبادی کے مقابلے میں ووٹرز کا عمومی تناسب 46 سے 51 فیصد کے درمیان ہے۔جماعت اسلامی کے الیکشن انچارج راجہ عارف سلطان کے مطابق534 بلاکس میں آبادی کے مقابلے میں ووٹرز کا تناسب 100 سے 4900 فیصد سے زائد رہا۔ جن میں سے مثلا آرام باغ کے گورنمنٹ بوائز سکول کے بلاک نمبر 434030704 میں آبادی صرف 9 افراد، جب کہ ووٹرز کی تعداد 441 ہے۔ اسی طرح گلزار ہجری کے چٹھہ گبول گوٹھ کے بلاک نمبر 441040101 میں آبادی 1040 ہے ، جب کہ ووٹرز کی تعداد صرف 9 ہے ، جو ایک فیصد سے بھی کم بنتی ہے۔ ہم نے الیکشن کمیشن کو اس طرح کے اعدادو شمار سے تحریری طور پر آگاہ کیا ہے۔ مگرالیکشن کمیشن کے لیے اتنے بڑے پیمانے پر ان شکایات کے ازالے کے وسائل ہیں نہ وقت۔

یکساں انتخابی ماحول نہ ملنا
مختلف جماعتوں کو یکساں انتخابی ماحول نہ ملنے کی شکایت سب سے زیادہ شکایت مسلم لیگ ن ،متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، جمعیت علما اسلام(ف)، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور دیگر کو رہا۔مسلم لیگ(ن) کے خواجہ طارق نزیر کے مطابق ان کی جماعت کے خلاف تقریبا 4سال سے احتجاجی مہم ،دو سال سے پانامہ کیس کی بنیاد پر میڈیا ٹرائل، اداروں کی معاملات میں برائے راست مداخلت، پارٹی توڑنے کی کوشش، وفاداری تبدیل کرنے لیے رہنماؤں اورامیدواروں پر دباؤ، مودی کے یار اور پاکستان کے غدارکا نعرہ، ختم نبوت کے حلف نامہ میں تبدیلی کو بنیاد بناکر ن لیگ کے خلاف ایک مذہبی طبقے کو استعمال کرنا اور اسی نوعیت کے دیگر اقدام قبل از انتخاب دھاندلی کا حصہ تھا۔یورپی یونین مبصر مشن کے سربراہ مائیکل گہلر27 جولائی 2018ء کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران انتخابی جائزے کے حوالے سے ابتدائی رپورٹ جاری کی۔جس میں کہاکہ ملک میں تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع فراہم کرنے کے قوانین موجود ہونے کے باوجود انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کو یکساں مواقع نہیں ملے۔ہم سمجھتے تھے کہ نئے انتخابی بل میں مثبت قانونی تبدیلیوں، مضبوط اور ایک غیر جانب دار الیکشن کمیشن کے ہوتے ہوئے سیاسی ماحول نے 2018 ء کے انتخابی عمل پر منفی اثرات مرتب کیے۔ انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ اورعدلیہ کے سیاسی کردار کی مداخلت اور اثر انداز ہونے کے الزامات بھی سامنے آئے۔ انتخابی حوالے سے مخصوص ٹائمنگ، عدلیہ کے فیصلوں کی تحقیقات کی نوعیت یا پاکستان کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ(ن) کے حوالے سے معاملات پر فیصلوں کو کئی اسٹیک ہولڈرز نے عدلیہ کی سیاست میں مداخلت سے تعبیر کیاہے۔انتخابات کے پیش نظر مقدمات نے سیاسی ماحول کو نئی شکل دی۔بیشتر مبصرین نے سابق حکمراں جماعت(ن لیگ)ان کی قیادت اور امیدواروں کے خلاف کرپشن کے مقدمات، توہین عدالت اور دہشت گردی کے الزامات کے ذریعے کمزور کرنے کے لیے منظم کوششوں کا اعتراف کیا۔متحدہ مجلس عمل کراچی کے صدر حافظ نعیم الرحمن کے مطابق تمام جماعتوں نے یہ محسوس کیاکہ انتخابی مہم کے دوران بھی کچھ جماعتوں کے لیے نرم گوشہ ،جبکہ کچھ کے لیے سخت رویہ تھا۔ اس ضمن میں 27جون 2018ء کوتحریک انصاف کے سوا تقریبا تمام جماعتوں کے وفود نے صوبائی الیکشن کمشنر یوسف خان خٹک سے ملاقات کی اور الیکشن کمیشن کے ضابطٔ اخلاق بالخصوص شہر میں مختلف سیاسی جماعتوں کے بینرزاورپینا فلیکس ہٹانے کے حوالے سے شکایت سے آگاہ کیا۔اور اسی روز صوبائی الیکشن کمشنر نے خبر بھی جاری کی۔دوسری جانب کچھ جماعتوں بالخصوص پاکستان تحریک انصاف،تحریک لبیک پاکستان اوردیگر جماعتوں کے لیے حالات سازگار بنادیے گئے۔

ایم کیوایم پاکستان گروپ بندی اورانجام
متحدہ قومی موومنٹ عملًا 1988ء سے ملک کے سب سے بڑے معاشی حب کراچی، حیدرآباد اورمیر پورخاص کی بلا شرکت حکمران رہی اورایک منظم ووٹ بینک رکھتی تھی۔ اس کے ووٹ بینک کو توڑنے کی کوشش کئی بار کی گئی۔مگر کامیابی نہیں ملی، اس کی واضح مثال 19جون1992ء کا آپریشن،3 مارچ 2016ء کو سید مصطفی کمال اور ان کے ساتھیوں کی بغاوت اور سنسنی خیز بھر پور مہم ہے۔ اور 23مارچ2016ء کونئی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی کا قیام ہے۔مگر22اگست 2016ء کو ایم کیو ایم کے بانی کے پاکستان مخالف بیان نے خود اپنی جماعت پر کلہاڑی کا وار کیا۔ اوریہیں سے ایم کیوایم کا سیاسی مستقبل سوالیہ نشان بنا۔ اور ایم کیوایم دو واضح گروپوں ایم کیوایم پاکستان اور ایم کیوایم لندن میں تقسیم ہو گئی،جبکہ پاک سرزمین پارٹی بھی ایم کیوایم سے نکلا ہوا گروپ تھا۔تاہم یہ خدشہ تھا کہ عام انتخابات 2018ء میں ایم کیوایم پاکستان بیشتر نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی ،کیونکہ ووٹ بینک بہت کم متاثر ہوا تھا۔اس کا ادراک مقتدر قوتوں کو بھی تھا۔ صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت پر سید مصطفی کمال کی جماعت پاک سرزمین پارٹی میں ضم ہونے کا دباؤ ڈالا گیا،مگر ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار صرف اتحاد پر راضی ہوئے اورپھر 10نومبر2017ء کو کراچی پریس کلب میں پر ہجوم پریس کانفرنس میں سید مصطفی کمال اور ڈاکٹر فاروق ستار نے اتحاد کا اعلان کیا اورایک نام ، ایک نشان اور ایک منشورکے پلیٹ فارم سے جلد جدوجہد کے عزم کا اظہارکیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کے ساتھیوں کا رویہ شکست شدہ قافلے اور سید مصطفی کمال ان کے ساتھیوں کا رویہ فاتحانہ تھا۔یہی وجہ ہے کہ اتحاد 24گھنٹے بھی نہ چل سکا۔ڈاکٹر فاروق ستار نے 11نومبر 2017ء اپنی رہائش گاہ واقع پی آئی بی کالونی میں پریس کانفرنس میں یہ انکشاف کیاکہ اس اتحاد کے حوالے سے ملاقاتیں تحریک انصاف کے ایک رہنما (فیصل واوڈا)کے گھرپرہوئی اور ملاقاتوں میں بعض حکام بھی موجود تھے۔ملاقاتوں اوراسٹبلشمنٹ کے افراد کی موجودگی کی تصدیق سید مصطفی کمال خود بھی کی۔ سچ یہ ہے کہ اس طرح بری ناکامی کے بعد ایم کیوایم پاکستان ڈاکٹر فاروق ستار کے خلاف بغاوت کرائی گئی اور ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی قیادت میں ایم کیوایم بہادرآباد گروپ نے ڈاکٹر فاروق ستار کو سربراہی سے ہٹادیا۔ اورایم کیو ایم پاکستان اب ایم کیو ایم پاکستان (بہادر آباد گروپ )اور ایم کیو ایم پاکستان (پی آئی بی) گروپ میں تقسیم ہوئی۔2مئی 2018 ء کو دونوں گروپوں نے اتحاد کا اعلان تو کیا، مگر اندرونی خلیج برقرار رہی اور ایم کیوایم پاکستان عملًا مفلوج ہوگئی۔ جس کا نتیجہ ڈاکٹر فاروق ستار گروپ کا صفایہ اور ایم کیوایم کی محدود کامیابی شکل میں نکلا۔ایم کیوایم کے سید امین الحق کے مطابق ایم کیوایم کے ساتھ کیا ہوا ؟وہ سب کے سامنے ہے اور ہم آج بھی جدوجہد کر رہے ہیں۔

ہر حلقے کے لیے الگ الگ ریٹرننگ افسران فارمولہ
ریٹرننگ افسران کی تقرری کے حوالے سے عام انتخابات2018ء کے حوالے سے نئی پالیسی بنائی گئی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ماضی کے انتخابات میں قومی اسمبلی کا ایک حلقہ اوراس کے ساتھ والے صوبائی اسمبلی حلقوں کے لیے ایک ہی ریٹرننگ اور دو اسسٹنٹ ریٹرننگ افسران ہوتے تھے، جو کل 1420سے 1450کے درمیان ہوتے۔ مگر اس بارقومی اور ہر صوبائی اسمبلی ہر حلقے کے لیے الگ الگ ریٹرنگ افسران اور اسسٹنٹ افسران مقرر کیے گئے اور یوں یہ تعداد 2547تک پہنچ گئی۔ یہ عمل ایک طرف قومی خزانے میں بوجھ کا باعث بنا ،تو دوسری طرح انتظامیہ کے لیے بھی مشکلات کا باعث بھی بنا۔الیکشن میں انتخابی عملے کی کمی اور عملے کی مشکلات کی اصل وجہ یہی عمل بنا اور انتخابات کی شفافیت پر سوالات پیدا ہوئے۔

عملے کی تربیت کے بعد ریٹرننگ افسران کا تقرر
الیکشن کمیشن نے عملے کی تربیت الیکشن سے تقریبا دو ماہ قبل مکمل کی تھی۔ مگرریٹرننگ افسران نے اپنی تقرری کے بعد اپنی مرضی سے عملہ تقرر کرنے کے لیے کوشش کی۔ اور تربیت یافتہ عملے کا ایک بڑا حصہ الگ کردیا گیا۔ انتخابی عملے کے طور پر پہلی بار سرکاری ملازمین کی بجائے نجی بینکوں، ہوٹلوں، نجی تعلیمی اداروں اور دیگر شعبوں سے لیاگیا،جو غیر تربیت یافتہ تھا اور وقت کی قلت کی وجہ سے پولنگ اسکیم پر بھی توجہ نہیں دے سکا۔ملکی تاریخ میں پہلی بار یہ دیکھاگیا کہ ایک فرد کی دو سے زائد مقامات پر ڈیوٹی لگادی گئی اورایک ریٹر ننگ آفیسر کے ہاں حاضری دینے کے باوجود دوسرا ریٹرننگ آفیسرحاضر نہ ہونے والے افراد کے خلاف وارنٹ جاری کرتا تھا، یوں عملے کے لیے انتخابی عمل قومی فریضے کی بجائے بیگار بن گیا۔

سپر پریز ائیڈنگ آفیسر
ہمیشہ پولنگ اسٹیشن کا اصل ذمہ دار اور سربراہ پریزائیڈنگ آفیسر(پی او)ہوتا ہے اوراس کو درجہ اول مجسٹریٹ کے اختیارات بھی حاصل ہوتے ہیں۔ اس بار بھی کاغذ اور ریکارڈ کی حد تک ایسا ہی تھا، مگر عملًا سیکورٹی آفیسر ذمہ دار تھا۔ اس لیے بعض مبصرین نے سپر پریزائیڈنگ آفیسر(ایس پی او)کا نام تخلیق کیا،جس کو مجسٹریٹ کے اختیارات بھی دیے گئے۔سیکورٹی آفیسر کے سامنے پریزائیڈنگ آفیسر بے اختیار تھا۔ ہرعمل میں سیکورٹی آفیسر کا حکم ہی حرف آخرتھا۔سیکورٹی آفیسر کے اس کردار کی وجہ سے کئی مسائل پیدا ہوئے۔ اصولی طور پر پریزائیڈنگ افسران کو اس بات پر احتجاج کرنا چاہئے تھا۔ مگر شاید کسی مجبوری کی وجہ سے ایسا نہ کیا گیا یا یہ کہ حلف کی وجہ سے بھی خاموشی بہتر سمجھی گئی۔پولنگ ڈے کی کوریج کے حوالے سے مختلف میڈیا نمائندوں نے اس کو رپورٹ کیا۔

گنتی کا عمل
پولنگ کے دن بعض مقامات پر پولنگ تاخیر سے شروع ہونے اور بیشتر مقامات پرمیڈیا کو پولنگ اسٹیشن کے اندر کوریج سے روکنے کی شکایات ملیں اور یہ سب سیکورٹی عملے سے متعلق تھیں۔ سب سے خوفناک عمل گنتی کے وقت پولنگ ایجنٹوں کو نکال باہر اور فارم 45 فراہم نہ کرناہے۔ یہ شکایت ملک بھر سے چند جماعتوں کے سوا سب کو یکساں رہی اور یہ بات مشاہدے میں بھی آئی۔الیکشن کمیشن کے آرٹی ایس سسٹم کا اچانک خراب ہونا، پورے انتخابی عمل میں سوالیہ نشان اور سب سے بڑا وجہ نزاع ہے۔انتخابی نتائج کے اعلان میں غیر معمولی تاخیربھی نے بھی انتخابات کی شفافیت کو سوالیہ نشان بنادیا۔متحدہ مجلس عمل سندھ کے صدرمولانا راشد محمود سومرو،پیپلزپارٹی کے سید وقار مہدی اورایم کیوایم پاکستان کے سید امین الحق نے مذکورہ باتوں کی تصدیق کی۔

دوبارہ گنتی سے انکار
بعد از انتخابات دوبارہ گنتی ایک اہم عمل ہے۔انتخابی اصلاحات ایکٹ2017ء کے رول 95 کے (5)مطابق جس حلقے میں ہار اور جیت کے 10ہزار ووٹ یا 5فیصد ووٹ سے کم کا فرق ہو، وہاں ریٹرننگ آفیسر دوبارہ گنتی کی درخواست پر عمل کا پابند ہے۔ مگریہاں 2018ء کے عام انتخابات میں ایسا نہیں کیاگیا۔ بلکہ جہاں پرہاراور جیت کے فرق کے مقابلے میں مسترد ووٹ کی تعداد کئی گنا زائد تھی، وہاں بھی دوبارہ گنتی کی درخواستیں مسترد کی گئیں اور کہاگیاکہ الیکشن ٹربیونل سے رجوع کریں۔ مسلم لیگ( ن) سندھ کے سابق سیکرٹری اطلاعات خواجہ طارق نزیز کے مطابق قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 239 ضلع غربی کراچی سے تحریک انصاف کے فیصل واوڈا 35ہزار344ووٹ لے کر کامیاب ہوئے اور مسلم لیگ(ن)کے صدر میاں محمد شہبازشریف 34ہزار626ووٹ لے کر دوسرے نمبر رہے،جبکہ 2ہزار684ووٹ مسترد ہوئے تھے اورہار جیت کا فرق 718ووٹ کا ہے۔قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 239سے تحریک انصاف کے محمد اکرم 69ہزار 147ووٹ لیکر کامیاب اور ایم کیوایم پاکستان کے خواجہ سہیل منصور 68ہزار811ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے،جبکہ 3ہزار 281ووٹ مسترد ہوگئے اورہارجیت میں فرق صرف 336 ووٹ کا ہے۔ دونوں حلقوں میں ریٹرننگ آفیسر، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور عدالتوں نے دوبارہ گنتی کی درخواستیں مسترد کیں۔ دوسری جانب بعض جماعتوں کی دوبارہ گنتی کی درخواستوں پر عمل کیاگیا،مثلا قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 248پر تحریک انصاف کے محمد عزیز کی درخواست پر دوبارہ گنتی ہوئی اورپیپلزپارٹی کے عبدالقادر پٹیل کی جیت برقرار رہی۔

سیاسی رہنماؤں کا ردعمل
پیپلزپارٹی سندھ کے جنرل سیکرٹری وقار مہدی کے مطابق اس بار کھلے عام منظم دھاندلی کی گئی اور پہلی بار منظم انداز میں ایک خاص پارٹی کو کامیاب کرایاگیا، پیپلزپارٹی کو18ویں ترمیم کے ذریعے صوبائی خودمختاری دینے اور جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کی سزادی گئی۔ہم اپنے نمائنوں سے کہیں گے کہ پارلیمانی کمیٹی کی تحقیق صرف چند معاملات تک نہیں رہنی چاہئے، بلکہ تمام پہلو پر تحقیق ہو اور اگر دھاندلی نہیں ہوئی ہے تو حکومتی جماعت خوفزدہ کیوں ہے؟ وزیراعظم عمران خان نے بے قاعدگیوں کی تحقیقات کا قوم سے وعدہ کیا ہے اور یہ وعدہ پورا ہونا چاہے۔مسلم لیگ(ن)سندھ سابق سیکرٹری اطلاعات خواجہ طارق نزیر کے مطابق ہماری جماعت 2014ء سے نشانے پر تھی اور ہمارا راستہ روکنے کے لیے ہر قانونی، غیر قانونی، غیراخلاقی اور غیر جمہوری طریقہ اختیار کیاگیا۔ سینیٹ انتخابات 2018 ء میں ہمارے امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ سے محروم رکھا گیا اور پھر ان کو پارٹی میں شامل بھی نہیں ہونے دیاگیااوریہ ہمارے ممبران آج بھی آزاد شمار ہوتے ہیں۔ہمارے لیے عام انتخاب شرکت کے تمام راستے مسدود کردیے گئے تھے۔ اس کے باوجود ہم نے نہ صرف الیکشن میں حصہ لیا، بلکہ خلاف توقع نشستیں جیتیں۔ مگر نتائج تبدیل کیے گئے اور ہمیں 15سے 20 نشستوں سے محروم کرکے ایک خاص جماعت کو دی گئیں۔ ہم نے دوبارہ گنتی کے اور جانچ پڑتال کے لیے قانون کے مطابق ریٹرنگ افسر اور ڈسٹرکٹ ریٹرنگ افسر،الیکشن کمیشن اور عدالتوں سے رجوع کیا مگر انصاف نہیں ملا۔ ہم کوشش کریں گے پارلیمانی کمیٹی میں پولنگ ڈے سے قبل ، پولنگ ڈے اور بعداز پولنگ ڈے دھاندلی کی تحقیق کی جائے۔ متحدہ مجلس عمل سندھ کے صدر مولانا راشد محمود سومرو کے مطابق مذہبی قوتوں کو دانستہ طور پر دیوار سے لگایاگیا۔ ہمارے قائد مولانا فضل الرحمن کو ہروانے کے لیے ہر راستہ اختیار کیاگیا۔ پارلیمانی کمیٹی کو مردم شماری سے انتخابی نتائج تک تمام پہلو کا جائزہ لینا چاہئے۔تحریک انصاف سندھ اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر حلیم عادل شیخ کے مطابق عوام نے عمران خان پر اعتماد کیا ہے اور اپوزیشن صرف پروپیگنڈا کر رہی ہے۔ اب پارلیمانی کمیٹی بنی ہے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگا۔اپوزیشن کا یہ عجیب رویہ ہے جہاں وہ جیتے وہاں شفاف انتخابات ہوئے اورجہاں عوام نے ان کو مسترد کیا وہاں دھاندلی ہوئی۔ایم کوایم پاکستان کے رکن قومی اسمبلی سید امین الحق کے مطابق 2018ء کے انتخابات میں ایم کیوایم پاکستان کو خاص نشانہ بنایا گیا اور ہمیں ہرانے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے گئے۔ ہم پارلیمانی کمیٹی میں ہر پہلو کی تحقیقات کا مطالبہ کریں گے۔ میں خود کمیٹی کا ممبر ہوں۔

کنورمحمد دلشاد کا موقف
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن اور انتخابی ماہر کنور محمد دلشاد کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ نے انتخابات میں مبینہ بے قاعدگیوں کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی ہے اور اس کمیٹی کو سنجیدہ ہوکر فعال اندازمیں کام کرنا ہوگا۔ کمیٹی کو کام پھیلانے کی بجائے فارم 45، آر ٹی ایس سسٹم کی بندش اور دیگر اہم شواہد پر توجہ دینا ہوگی۔ کمیٹی کے لیے یورپی یونین کے مبصرین کی رپورٹ بہت اہم ہے۔ اور اس پوری رپورٹ پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بلاوجہ کی تاخیر سے معاملہ حل نہیں ہوگا ، اس لیے کمیٹی کو فعال ہوکر کام کرنا ہوگا۔

خلاصہ و تجاویز
پارلیمانی کمیٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ سنجیدہ ہوکرنہ صرف مبینہ انتخابی بے باقاعدگیوں کی مکمل تحقیقات کرے، بلکہ اس کے ذمہ داروں کاتعین اور ملوث عناصر کی تعزیر کے لیے تجاویز بھی دے۔ یہ بھی درست ہے کہ مردم شماری سے لے کر دوبارہ گنتی کی درخواستوں کے مسترد ہونے کے عمل کے دوران دانستہ یا غیر دانستہ کوتاہیاں کی گئی ہیں۔ ان کوتاہیوں کی نشاندہی اور آئندہ بچنے کے لیے سخت قانون سازی کی ضرورت ہے۔ پارلیمانی کمیٹی اس حوالے سے بھی اپنی سفارشات اورتجاویز مرتب کرے۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے