پاکستان پاکستان24

علیمہ خان کو تین کروڑ جرمانہ

دسمبر 13, 2018 3 min

علیمہ خان کو تین کروڑ جرمانہ

Reading Time: 3 minutes

پاکستانیوں کے بیرون ملک اثاثوں کے کیس میں وزیراعظم کی بہن علیمہ خان عدالت میں پیش ہوئی ہیں ۔ عدالت نے علیمہ خان کو انتیس اعشاریہ چار ملین ایک ہفتے میں ایف بی آر کے پاس جمع کرانے کیلئے کہا ہے ۔ بعد میں اگر فیصلہ ہوا کہ جرمانہ کم بنتا تھا تو رقم واپس کر دی جائے گی ۔ عدالت نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے کہا ہے کہ اگر جمع نہیں کرواتیں تو ان کی جائداد ضبط کر لیں ۔

عدالت کو علیمہ خان نے بتایا کہ دبئی میں جائداد تین لاکھ ستر ہزار ڈالر میں خریدی، پچاس فیصد قرضہ لیکر ضائداد خریدی تھی ۔ علیمہ خان کے وکیل سلمان اکرم نے کہا کہ میری موکلہ پر 18 ملین روپے کے واجبات بنائے گئے ہیں ۔

ایف بی آر کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ علیمہ خان کے ذمے دو کروڑ 94 لاکھ واجب الادا ہیں، ایف بی آر کے چیئرمین نے بتایا کہ عدالتی ہدایت پر خصوصی کمیٹی تشکیل دی ہے، ایف بے آر کمیٹی نے دن رات کام کر کے تمام کیسز کا جائزہ لیا، کمیٹی نے چار کیسز کو کلیئر قرار دیا ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے 20 افراد بطور ٹیسٹ کیس بھجوائے تھے، آگاہ کیا جائے کتنے افراد سے ریکوری ہوئی ہے ۔ ایف بی آر کا موقف تھا ریکوری ہو سکتی ہے گرفتاریاں نہیں ۔ ایف بی آر کے ممبر آپریشنز نے بتایا کہ ایک پاکستانی نوشاد ہارون نے بیرون ملک 6 جائیدادیں ظاہر نہیں کی تھیں اس  کے ذمے دو کروڑ ہیں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ چھ جائیدادوں کا 2 کروڑ کیسے بن گیا ۔ ممبر آپریشنز نے بتایا کہ 2 کروڑ روپے صرف ٹیکس کی رقم ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ممکن ہے عدالت ایف بی آر کا بھی فرانزک آڈٹ کروائے ۔ ممبر آپریشنز نے بتایا کہ ایک اور شہری شیخ فریدالدین ایک ہفتے میں 2 ملین جمع کروائیں گے، نورین سمیع خان بیرون ملک جائیداد پر 3 ملین ادا کر دیا، 2 ملین مزید کریں گی، مجموعی طور پر پانچ لوگوں سے 45 ملین ریکور ہوئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایف بی آر پہلے کیا کر رہا تھا ۔ ممبر نے کہا کہ ایف بی آر عدالت کا مشکور ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو کیوں ہر کام میں مداخلت کرنا پڑتی ہے؟ بیرون ملک اثاثوں کا کم ازکم تین ہزار ملین کا ایشو ہے، ادارے خود اپنا کام کیوں نہیں کرتے۔ ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے کہا کہ اب تک 2 ہزار 154 جائیدادیں سامنے آئی ہیں، مجموعی رقم تین ہزار ملین سے بڑھ جائے گی، تحقیقات میں مزید جائیدادیں سامنے آ رہی ہیں۔

عدالت کو ایف بی آر کے ممبر آپریشنز نے بتایا کہ ایک اور پاکستانی ہمایوں بشیر کو کمیٹی نے کلیئر قرار دیا ہے، ہمایوں بشیر نے تمام رقم دبئی سے کمائی تھی۔ مسٹر بشیر نے تمام ریکارڈ ایف آئی اے کو فراہم کر دیا ہے۔ہمایوں بشیر نے بتایا کہ 2013 کے گوشواروں میں تمام جائیدادیں اور اثاثے ظاہر کیے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ضروت پڑی تو آپ کا دوبارہ آڈٹ کروائیں گے۔

بتایا گیا کہ ایک شہری دلدار چیمہ نے غیر ملکی جائیداد 2010 میں فروخت کر دی تھی۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ جو افراد کمیٹی میں پیش نہیں ہوئے انکے خلاف کیا کاروائی ہوئی؟

عدالت کو ایک اور شہری وقار احمد کے بارے میں رپورٹ سے بتایا گیا تو چیف جسٹس نے کہا کہ پانچ کروڑ سے ایک ارب روپے کلیئر کرادیئے گئے، وقار احمد کا ایک ارب روپے کا معاملہ منی لانڈرنگ کے زمرے میں آتا ہے، ایف آئی اے وقار احمد کیخلاف تحقیقات کرے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وقار احمد کا نام مقدمے کے حتمی فیصلے تک ای سی ایل میں رہے گا، ایف آئی اے اور ایف بی آر تحقیقات کرے، چیف جسٹس نے کہا کہ وقار احمد کے پاس ایک ارب کہاں سے آیا، وقار احمد تو دبئی میں بنک کرپٹ ہو گیا تھا ۔

وقار احمد کے وکیل نے کہا کہ نوٹس آیا ہے ہم نے ایمنسٹی لی تھی اور قانون کے مطابق تھی ۔ ایف بی آر نے بتایا کہ ساٹھ ملین ٹیکس بنتا ہے جو وہ دینے کیلئے تیار ہیں ۔ عدالت نے وقار احمد کو ایک ہفتے میں 60 ملین روپے جمع کرانے کا حکم دیا اور کہا کہ عدم ادائیگی پر گرفتار کیا جائے ۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی ۔

 

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے