پاکستان24 متفرق خبریں

عمران خان کے فلیٹ والی غیر قانونی بلڈنگ کا مقدمہ

دسمبر 13, 2018 3 min

عمران خان کے فلیٹ والی غیر قانونی بلڈنگ کا مقدمہ

Reading Time: 3 minutes

سپریم کورٹ نے عمران خان کے فلیٹ والی ٹون ٹاورز کی غیر قانونی عمارت کی مالک کمپنی سے کہا ہے کہ وہ لیز کی رقم ادائیگی کا شیڈول ایک ہفتے میں جمع کرائے، اس شیڈول پر وفاقی ترقیاتی ادارہ سی ڈی اے اور وفاقی حکومت اپنا مؤقف دے ۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے ٹون ٹاورز/گرینڈ حیات کیس کے بارے میں پروگرام کرنے پر اینکر رؤف کلاسرا، عامر متین اور محمد مالک کو برہمی کا اظہار کرتے ہوئے طلب کیا ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ زیر التواء مقدمات کے حوالے سے عدالت فیصلے دے چکی ہے، میڈیا کو تبصرہ کرتے ہوئے اختیاط کرنی چاہیے، محمد مالک اور عامر متین نے گرینڈ حیات کیس میں غیر ضروری گفتگو کی، پندرہ ارب والی بات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ۔ 92 نیوز پر بیٹھ کر معاملے کو مختلف اینگل دینے کی کوشش کی ۔ کیا سمجھتے ہیں وہ کہ عدالتوں میں کیا ہو رہا ہے، وہ تصفیے کرانے کا متبادل نظام (اے ڈی آر) بنا لیں اگر انہوں نے ٹی وی پر بیٹھ کر فیصلے کرنے ہیں ۔

دو اینکرز رؤف کلاسرا اور عامر متین عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے پوچھا کہ زیرسماعت مقدمے پر بات کیوں کی؟ ۔ کیا عدالتوں میں بیٹھے ججوں کے ذہن کو متاثر کرنا چاہتے ہیں ۔ رؤف کلاسرا نے کہا کہ آئندہ محتاط رہیں گے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئندہ احتیاط کریں اور ارشد شریف پر دیا گیا سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی پڑھ لیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کلاسرا اور عامر متین کی حد تک معاملہ ختم کرتے ہیں، محمد مالک آئندہ سماعت پر آئیں ۔

گرینڈ حیات ٹاورز بنانے والی کمپنی کے وکیل نے کہا کہ عدالت نے پندرہ ارب مزید جمع کروانے پر سوچنے کیلئے کہا تھا، ہم نے اس پر جواب جمع کرایا ہے ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے پوچھا کہ ابھی تک آپ نے صرف ایک ارب روپیہ جمع کرایا ہے؟ وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ ایک ارب 23 کروڑ روپے لیز کی اصل رقم میں سے ادا کر چکے ہیں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عجیب لگتا ہے کہ اب تک صرف اتنی رقم دی ہے، اگر درست ریکارڈ سامنے ہو تو آٹھ دس ارب کے تو صرف فلیٹس ہی بیچ چکے ہیں۔ یہ تو ایسا ہے جیسے مفت میں ہی سب لے گئے ہیں ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ابتدائی لیز کی رقم 4 ارب 90 کروڑ تھی، اب 15 ارب مزید جمع کرلیں تو کل 19 ارب 90 کروڑ بنتے ہیں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کمپنی نے رقم ادائیگی کا جو شیڈول فراہم کیا ہے اس کے مطابق تو رقم کی قسطیں 2038 تک پوری ہوں گی، اسی کمپنی نے یہ عمارت ضرور بنانی ہے؟ کسی اور کو دے دیتے ہیں، نئی بڈنگ ہو جائے گی، جس زمین کی قیمت نہیں دے سکتے اس کو کیوں بنانے دیں؟ ایک ارب روپے تو مونگ پھلی کے دانے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کمپنی نے پہلے دس سال کی ادائیگی کا جو پلان دیا ہے اس کے مطابق ہر سال صرف 34 کروڑ دیں گے، یہ کیا ہے؟ ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ کمپنی اگر عمارت رکھنا چاہتی ہے تو تین سال میں ساری رقم ادا کرے، اصل نیلامی کے مطابق 2027 تک ساری رقم ادا کرنا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں ان لوگوں کا نقصان نہ ہو جنہوں نے اس عمارت میں فلیٹ خریدے ہیں ۔

 

چیف جسٹس نے کہا کہ اتنی بڑی رقم میں 1.6 ارب فی الحال ادا ہوئے ہیں۔ یہ رقم بھی گرینڈ حیات مالکان نے بڑی رعائیت کے بعد ادا کی، یہ تو مفت میں سرکاری اراضی پر کام شروع ہو گیا ہے، کیوں نہ 1.6 ارب رقم اور ٹاور پر خرچ مالک کو واپس کر دیں، سی ڈی اے ٹاور کا نظام خود سنبھال لیں۔ سی ڈی اے اس کی تعمیر مکمل کرے۔

جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ گرینڈ حیات کی بکنگ میں پانچ ارب روپے اکھٹے ہوئے۔ وکیل نے استدعا کی کہ عدالت ادائیگی کے لیے وقت دے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ گرینڈ حیات کے مالک کو نکالتے ہی نئی نیلامی کراتے ہیں۔ گرینڈ حیات کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ ہم بقیہ 18 ارب روپے کی ادائیگی کا نیا شیڈول دے دیتے ہیں ۔

سی ڈی اے کے وکیل نے کہا کہ 15 ارب پر بھی اس کمپنی کو دینے کیلئے تیار نہیں، یہ معاہدہ قانون کے خلاف ہوا تھا اور اسی وجہ سے ہم نے اپنے افسران کے خلاف کارروائی کی ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ معاہدے کو کابینہ کے سامنے رکھیں اگر وفاقی حکومت کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اس کو اختیار ہے ۔

عدالت نے حکم دیا کہ گرینڈ حیات بنانے والی کمپنی ادائیگیوں کا نیا شیڈول جمع کرائے جس کا سی ڈی اے اور وفاقی کابینہ جائزہ لے ۔ اگر اتفاق رائے نہ ہوا تو سپریم کورٹ 28 دسمبر کو اس مقدمے کی سماعت کرے گی ۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے