متفرق خبریں

کہاں کیا بات ہوئی معلوم ہے، چیف جسٹس

دسمبر 14, 2018 3 min

کہاں کیا بات ہوئی معلوم ہے، چیف جسٹس

Reading Time: 3 minutes

سپریم کورٹ نے پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ (پی کے ایل آئی) کا کنٹرول صوبائی حکومت کے حوالے کرنے کیلئے قانون سازی کی سمری پر پنجاب کابینہ دو ہفتے میں فیصلہ کرنے کی ہدایت کی ہے ۔ عدالت نے پی کے ایل ائی انتظامی کمیٹی میں سرجن جنرل آف پاکستان کو بھی شامل کرنے اور ایک ہفتے میں پاک فوج کے سرجن جنرل کی رضامندی لینے کا بھی حکم دیا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اسپتال کو حوالے کرنے کیلئے ٹرسٹ سابق وزیراعلی نے بنایا ۔ بائیس ارب لگا دیئے لیکن لیور ٹرنسپلانٹ کا ایک آپریشن بھی نہیں ہوا یہ کیس تو نیب کو دیا جانا چاہیئے ۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کی سر براہی میں تین رکنی بنچ نے لاہور کے پاکستان کڈنی اینڈ لور ٹرانسپلانٹ اسپتال ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ۳۴ ارب روپے سے اسپتال بنایا جا رہا ہے، بائیس ارب روپے خرچ کر دیے، اتنے پیسوں میں پانچ اسپتال بن جاتے، ساری رقم ایک ٹرسٹ کو دے دی گئی، دو مرتبہ ایڈوکیٹ جنرل نے کہا یہ اسپتال کو ٹرسٹ کے حوالے کرنے کا قانون تبدیل کر رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ ٹرسٹ کو رہنا چاہیے یا نہیں ۔

چیف جسٹس نے پی کے ایل آئی کے انچارج ڈاکٹر سعید اختر سے کہا کہ تین سال سے آپ بیس لاکھ تنخواہ لے رہے ہیں، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں نے پی کے ایل آئی سے کوئی تنخواہ نہیں لی ۔ ڈاکٹر سعید نے کہا کہ ہم نے اکیس کڈنی ٹرانسپلانٹ کئے ہیں، کینسر کے علاج بھی کئے ہیں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی طور پر یہ لیور کا ٹرانسپلانٹ تھا،گردوں کے آپریشن تو دوسری جگہوں پر بھی ہو رہے ہیں، آپریشن تھیٹر فعال نہیں ہے، چیف جسٹس نے ڈاکٹر سعید اختر سے کہا کہ آپ شہباز شریف کے بڑے قریب تھے، اگر آپ کہیں تو آپ کو بتادوں گا کہ کیسے اور کہاں شہباز شریف سے ملے تھے، کیا کیا باتیں ہوئیں، سب پتہ ہے، اگر انکار کریں گے تو بتا دوں گا، ہمیں یہ سمجھائیں کہ پی کے ایل آئی کے لیے ٹرسٹ کی ضرورت کیا ہے، ٹرسٹ تو ایک خاص تعلق کی وجہ سے سابق وزیر اعلی نے بنایا تھا، کیا ٹرسٹ نے کبھی اپنا مالی حصہ ڈالا ہے، ممبر بورڈ نے جواب دیا کہ ٹرسٹ نے 165 ملین فنڈز کا حصہ ڈالا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ جون میں ایک لیور ٹرنسپلانٹ کا بھی آپریشن نہیں ہو سکا، یہ براہ راست کیس نیب یا انٹی کرپشن کو دینا چاہیے،

چیف جسٹس نے پنجاب حکومت پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت کی طرف سے کوئی کام نہیں ہو رہا ہم ایک کام کہتے ہیں پنجاب حکومت سے وہ بھی نہیں ہوتا پنجاب حکومت سست روی کا شکار ہے ہیلتھ کئیر کے سارے کام پنجاب میں رکے ہوئے ہیں ابھی تک ہیلتھ کئیر بورڈ ہی نہیں بنا بات کرو تو سرخیاں لگ جاتی ہیں عدالت نے نے پی کے ایل آئی کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے قانون سازی کی سمری پر صوبائی کابینہ دو ہفتے میں فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا ، عدالت نے پی کے ایل ائی انتظامی کمیٹی میں سرجن جنرل آف پاکستان کو بھی شامل کرنے اور ایک ہفتے میں پاک فوج اور سرجن جنرل کی رضامندی لینے کا بھی حکم دے دیا کیس کی سماعت دو ہفتوں تک ملتوی کر دی ۔

کیا ٹرسٹ نے کبھی اپنا مالی حصہ ڈالا ہے. چیف جسٹس

ٹرسٹ نے 165 ملین فنڈز کا حصہ ڈالہ ہے. ممبر بورڈ

جون میں ایک لیور ٹرانسپلانٹ کا بھی آپریشن نہیں ہو سکا. چیف جسٹس

34 ارب روپے میں 5 ہسپتال بن جاتے ہیں، یہ براہ راست کیس نیب یا انٹی کرپشن کو دینا چاہیے. چیف جسٹس نے کہا کہ 22 ارب روپے لگا دیا لیکن لیور ٹرنسپلانٹ کا ایک آپریشن نہیں ہوا، ایک بچے کا آپریشن نہیں ہو جبکہ ڈونر بھی موجود تھا، ابھی بھی جون تک یہ لوگ آپریشن کے لیے تیار نہیں ہیں، کام ایک نہیں ہوا. اربوں روپے تنخواہوں کی مد میں چلے گئے ۔

ہم نے اکیس کڈنی ٹرانسپلانٹ کیے ہیں، کینسر کے علاج بھی کیے ہیں۔ ڈاکٹر سعید اختر

بنیادی طور پر یہ لیور کا ٹرانسپلانٹ تھا، گردوں کے آپریشن تو دوسری جگہوں پر بھی ہو رہے ہیں۔ آپریشن تھیٹر فعال نہیں ہے۔ چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ شہباز شریف کے بڑے قریب تھے، اگر آپ کہیں تو آپ کو بتادوں گا کہ کیسے آپ شہباز شریف سے ملے تھے، کہاں ملاقات ہوئی تھی اور کیا باتیں کی گئیں، انکار تو کریں میرے پاس ساری تفصیلات ہیں ۔

چیف جسٹس کی پنجاب حکومت پر اظہار برہمی

پنجاب حکومت کی طرف سے کوئی کام نہیں ہو رہا، ہم ایک کام کہتے ہیں۔ پنجاب حکومت سے وہ بھی نہیں ہوتا، پنجاب حکومت سست روی کا شکار ہے، ہیلتھ کئیر کے سارے کام پنجاب میں رکے ہوئے ہیں، ابھی تک ہیلتھ کئیر بورڈ نہیں بنا۔ میں بات کروں تو سرخیاں لگ جاتی ہیں۔ چیف جسٹس

سرجن جنرل پاکستان جنرل زاہد کو اسپتال بورڈ میں شامل کیا جائے، عدالت
پنجاب حکومت دو ہفتوں میں قانون سازی پر پیش رفت رپورٹ دے، عدالت

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے