متفرق خبریں

مے فیئر فلیٹ سے فیئر ٹرائل تک

دسمبر 18, 2018 2 min

مے فیئر فلیٹ سے فیئر ٹرائل تک

Reading Time: 2 minutes

اسلام آباد کی احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس میں نیب کے پراسیکیوٹر نے حتمی دلائل کا آغاز کیا ہے ۔ جج ارشد ملک کی عدالت میں نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے دلائل میں کہا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ سے متعلق العزیزیہ ریفرنس والے حتمی دلائل ہی اس ریفرنس میں بھی اپناتے ہیں ۔

سردار مظفر نے کہا کہ فلیگ شپ سے نواز شریف کو سات لا کھ اسی ہزار درہم کے مالی فوائد پہنچے، یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے ۔ سردار مظفر نے کہا کہ باقی حقائق پر اس ریفرنس میں دلائل پراسیکیوٹر ملک اصغر دیں گے ۔

نیب پراسیکوٹر ملک اصغر نے حتمی دلائل میں کہا کہ ہمارا کیس یہ ہے کہ نواز شریف کے بیٹوں نے بے نامی کے طور پر جائیدادیں بنائیں، اس کیس میں دستاویزات ملزمان کے پاس تھیں اور وہی دے سکتے ہیں، جائیداد کی ملکیت سے متعلق تمام دستاویزات ملزمان کی پرائیویٹ دستاویزات ہیں، ملزمان نے سپریم کورٹ میں ایک منی ٹریل دینے کی کوشش کی ۔

ملک اصغر نے کہا کہ اس درمیان میں قطری شہزادے کا خط بھی آ گیا، ملزمان کی طرف سے دی گئیں تمام دستاویزات اور اپنائے گئے سارے موقف اس جائیداد کو درست ثابت نہیں کرتے، سپریم کورٹ میں ملزمان اپنی جائیداد کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے ۔

ملک اصغر نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کے ذریعے ملزمان کو ایک اور موقع دیا تھا، یہی سوالات جے آئی ٹی کو دیے گئے تھے کہ جوابات ڈھونڈ دیں، جے آئی ٹی کے سامنے بھی ملزمان ذرائع بتانے میں ناکام رہے ۔ ملک اصغر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فئیر ٹرائل کے تقاضے پورے کرتے ہوئے کیس نیب کو بھیجا اور ملزمان کو تیسرا موقع دیا ۔

نیب پراسکیوٹر ملک اصغر نے کہا کہ نیب نے ملزمان کو بلایا کہ آ کر موقف دیں، لیکن یہ لوگ پیش ہی نہ ہوئے ۔ ملک اصغر کی بات پر جج ارشد ملک نے جملہ اچھالا کہ یعنی بات مے فئیر سے فئیر تک پہنچ گئی ۔ (مے فئیر فلیٹ کا نام ہے جبکہ فئیر ٹرائل یعنی شفاف مقدمہ چلانا) جج کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقیے گونج اٹھے ۔

نیب پراسیکیوٹر ملک اصغر اعوان نے دلائل میں کہا کہ گلف اسٹیل مل کی کسی دستاویز سے ظاہر نہیں ہوتا کہ طارق شفیع میاں شریف کے بے نامی تھے ۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ کسی دستاویز سے میاں شریف کا گلف اسٹیل سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوتا، اگر مان لیا جائے کہ گلف اسٹیل میاں شریف کی تھی تو ظاہر ہوتا ہے کہ بے نامی جائیداد رکھنا ان کی روایت ہے ۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ شاید نیشنلائزیشن کی طرح کے خوف کی وجہ سے 2001 میں بے نامی جائیداد بنائی گئی، نوازشریف کی تقاریر سے بے نامی کا مقصد ظاہر ہوتا ہے ۔

 

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے