کالم

جرنیلی کاروبار

دسمبر 19, 2018 5 min

جرنیلی کاروبار

Reading Time: 5 minutes

اظہر سید
پاک فوج میں لیفٹنٹ جنرل امتیاز حیسن جیسے پیشہ ور فوجی بھی ہیں جو اپنے ادارے پر حرف آنے کے خوف سے اپنے سروس ریوالور سے خود کشی کر لیتے ہیں ۔ پاک فوج میں جنرل کیانی ایسے جنرل بھی پائے جاتے ہیں جن کے بھائی ان کے عہدے کے دوران ڈی ایچ اے میں اربوں روپیہ کی لوٹ مار کرتے ہیں اور سات آٹھ سال گزرنے کے باوجود قانون کی دسترس سے باہر ہیں ۔ بیرون ملک سے وطن واپسی کیلئے ان کے انٹرپول کے ریڈ وارنٹ ان کی بے پناہ طاقت کے سامنے پر نہیں مار سکتے ۔

جنرل امتیاز نے 36 سال فوج میں ملازمت کی، ان کی کوئی اولاد نہیں تھی اس لئے بیرون ملک سٹاف کورس کے دوران ان کے بچوں کو اعلی ترین امریکی تعلیمی اداروں میں سکالرشپ کی پیشکش بھی نہیں کی جا سکی ۔ ان کا شمار فوج کے ان جنرلوں میں ہوتا ہے جو بیماری کی صورت میں بیرون ملک علاج کیلئے بھی نہیں جاتے مبادہ غیر ملکی ایجنسیاں ان کے سینے میں ملکی سلامتی کے چھپے راز نہ جان لیں ۔ اور یہاں جنرل مشرف ایسے لوگ بھی ہیں جو جنرل ایوب کی طرح اپنے غیر آئینی اقتدار کیلئے امریکیوں کیلئے ایسے کارنامے سرانجام دیتے ہیں جس کی قیمت ملک و قوم کو ادا کرنا پڑتی ہے ۔

جنرل امتیاز نے دو غلطیاں کیں ۔ انہوں نے ڈی ایچ اے کی ڈویلپمنٹ کی زمہ داری بحریہ ٹاون کو دینے کا معاہدہ کیا اور انہوں نے آرمی ویلفیر ٹرسٹ کے سربراہ کی حیشیت سے ریٹائرڈ فوجی جوانوں اور افسران کی فلاح و بہبود کیلئے جمع پونجی پر 14 فیصد منافع دینے کا پروگرام تشکیل دیا ۔ بحریہ ٹاون کے ساتھ معاہدہ ان کی غلطی تھی لیکن وہ کوشش کے باوجود اس غلطی کو درست نہ کر سکے ۔ جنرل امیتیاز حسین نے ریٹائرڈ فوجی افسران اور جوانوں سے 43 ارب روپیہ کے ڈیپازٹ حاصل کر لئے تھے اور ان کا بڑا حصہ عسکری بینک میں نو فیصد شرح منافع کی شرط پر جمع کرا دیا جبکہ کچھ حصہ پراپرٹی کی خریداری پر صرف کیا ۔ ریٹائرڈ افسران اور جوانوں کو 14 فیصد ملتے تھے جبکہ آرمی ویلفیر اسکیم اے ڈبلیو ایس کو نو فیصد حاصل ہوتے تھے ۔ پانچ فیصد کا مسلسل نقصان ہو رہا تھا اسی طرح خریدی جانے والی پراپرٹی بھی اتنا منافع نہیں کما پائی نقصان کا ازالہ کر سکے ۔

جنرل جتنے مرضی نیک نیت ہوں وہ آپریشن رد الفساد میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں، جنرلز آپریشن ضرب عضب میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں ، جنرلوں کو کراچی اپریشن میں کامیابی مل سکتی ہے لیکن جنرل کاروبار نہیں کر سکتے ۔ انہیں اس کی تربیت ہی نہیں دی جاتی ۔ جنرل سیاست بھی نہیں کر سکتے جب کرتے ہیں تو پاک فوج ایسے پروفیشنل ادارے کی ساکھ کو جنرل ضیا الحق، جنرل مشرف اور 2018 کے عام انتخابات کی طرح صرف نقصان پہنچا سکتے ہیں اور بس ۔جنرل ایوب اور جنرل یحیا نے سیاستدانوں کو غدار، چور اور ڈاکو قرار دے کر اس ملک اور قوم کے ساتھ جو کچھ کیا اس پر ہمیں کچھ نہیں کہنا چاہیے کیونکہ تاریخ کی کتابیں اس کیلئے کافی ہیں ۔
جنرل امیتیاز کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے خودکشی کر لی لیکن خودکشی سے پہلے انہوں نے اپنے بھائی کو جو پیغام بھیجا اور اپنی اہلیہ کے ساتھ جو غم غلط کئے ان پر کوئی تفتیش ہوتی اور فیصلے ہوتے تو پاک فوج کاروبار سے ہاتھ اٹھا لیتی کہ یہ ان کے کرنے کا کام ہی نہیں، لیکن افسوس آج بھی ریٹائرڈ جنرل کاروبار کرتے ہیں ادارے اور قوم کو بھاری نقصان پہنچا رہے ہیں ۔

کاروبار کرنے کیلئے پروفیشنل لوگ موجود ہیں انہیں پیسے کیوں نہیں دیتے تاکہ اپنی ہنرمندی سے وہ خود بھی کمائیں اور فوج کو بھی کما کر دیں، ملک و قوم کا کیوں نقصان کرتے ہیں ۔ اس ملک میں کسی کے منہ میں اتنے دانت نہیں وہ فوج کے پیسے ہڑپ کر سکے ۔ دیں کسی کاروباری آدمی کو پیسے اور منافع کی ضمانت اور بینک گارنٹی لیں، کوئی جعلی گارنٹی نہیں دے سکتا، کوئی فراڈ نہیں کر سکتا تو کیوں خود کاروبار کرتے ہیں ۔
آرمی ویلفیر ٹرسٹ کی اسلام آباد میں ہاوسنگ اسکیم موٹر وے پر موجود ہے اس سے بہتر ہاوسنگ اسکیم پورے ملک میں موجود نہیں جس میں بجلی، پانی، گیس کے ساتھ چار دیواری اور تمام بنیادی سہولتیں موجود ہیں، یہ مستقبل کا زیرو پوائنٹ ہے، نئے اسلام آباد ائر پورٹ سے اس کا فاصلہ تین منٹ کا ہے ۔ سی پیک ہکلہ انٹرچینج سے اس کے ساتھ منسلک ہے، ہزارہ ایکسپریس اور موٹر وے کے ساتھ یہ ہاوسنگ اسکیم تین موٹرویز سے منسلک ہے لیکن عقل مند جنرلوں نے ایک فراڈیے کو اس اسکیم کا نام لے کر عوام سے لوٹ مار کی اجازت دی اور وہ فوج کا نام استمال کر کے لوگوں سے کمرشل پلازوں کی بکنگ کے نام پربھاری رقوم لے کر بھاگ گیا اور اب بعض ریٹائرڈ فوجی افسر ہی اس فراڈیے کو عدالتوں کے سٹے ارڈر کے زریعے بچ نکلنے کے راستے بھی بتا رہے ہیں ۔ فرادیے کو صرف ایک درجن کمرشل پلاٹ دئے ہوں گے ۔ جناب اعلی اتنے پیسے آپ کی زنبیل میں مونگ پھلی کے دانوں جیسے ہیں، خود تعمیر شروع کر دیں ایک ہفتے میں سرمایہ کار بھاگتے آئیں گے، لیکن کاروبار کرنا آتا ہو تو خود کمرشل پلازے تعمیر کریں ناں، انہیں تو بس ریٹائرمنٹ کے بعد گھومنے والی کرسی پر بیٹھ کر چائے پینا اور سیاستدانوں کو چور کہنا آتا ہے، کاروبار کرنا ان کے بس کی بات ہی نہیں ۔

فوجی فاونڈیشن کے بقراط ریٹائرڈ جنرلوں نے تین نئے کاروبار کرنے کا ڈول ڈالا ،کاروبار تو کیا کرنا تھا الٹا پہلے سے منافع میں جانے والے فوجی فرٹیلائزر اور بن قاسم پلانٹ کا بھی بیڑا غرق کر دیا ہے ،اچھے فوجیو کاروبار کرنا اپکا کام نہیں نہ آپ کو آتا ہے فوج کے پیسے کیوں برباد کرتے ہو ۔فوجی فریش اینڈ فیلڈ کا مقصد تھا سبزیوں اور پھلوں کو پراس کر کے برامد کریں گے ۔تمام حسابات موجود ہیں کوئی حاضر سروس جنرل کیوں نہیں پوچھتا ”افسر صاحب حساب دیں فوج کے کتنے پیسے لگے کتنی برامدات ہوئیں اور کتنا منافع ہوا اور اگر بھاری خسارہ ہو رہا ہے تو اس کو بند کیوں نہیں کرتے یا جنرل امیتیاز کی طرح کچھ انوکھا کیوں نہیں کرتے ۔فوجی میٹ کا مقصد تھا گوشت کا کاروبار ۔ اس پراجیکٹ میں کتنی پیدوار ہے کتنی کھپت ہے کتنا منافع ہوا رہا ہے اور کتنی سرمایہ کاری ہو چکی ہے، کاش کوئی حاضر سروس جنرل اس پر بھی توجہ دے ، پیسے فوج کے ہیں اور فلاح و بہبود کیلئے ہیں کاروبار کا بنیادی مقصد منافع ہے تاکہ افسران اور جوانوں کی فلاح و بہبود کیلے اقدمات کئے جا سکیں ۔سول افسر تو 60 سال میں ریٹائر ہوتا ہے فوجی افسر میجر ،کرنل اور بریگڈئر کے عہدہ سے ریٹائر ہوتا ہے، سارے جنرل نہیں بنتے ۔یہی حال جوانوں کا ہے وہ بھی بھری جوانی میں ریٹائر ہو جاتے ہیں انکی فلاح و بہبود ادارے کا فرض ہے ۔ تو جو پیسے فوج نے ان ریٹائر افسران اور جوانوں کیلئے مختص کئے ہیں ان کو کوئی کس طرح اپنے احمقانہ فیصلوں سے برباد کر سکتا ہے۔ ایک بقراط نے دودھ کا کاروبار کرنے کا نادر منصوبہ پیش کیا ،نور پور دودھ اب کہاں پر ہے ؟ اس منصوبے میں کتنا نقصان ہو چکا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے اور یہ منصوبہ تو اپنا تھا بھی نہیں ،ایک کاروباری خاندان سے خریدا تھا جو اس نقصان والے منصوبے کو بھاری منافع پر عقل مند جنرلوں کو فروخت کر گیا ۔
ان خسارہ میں جانے والے منصوبوں کو منافع میں جانے والے منصوبوں سے چلایا جا رہا ہے کیوں؟ فوج کے پیسے کیا کسی کے ذاتی پیسے ہیں کہ ریٹائرڈ افسران کی تنخواہوں اور مراعات کیلئے خسارے میں جانے والے منصوبے چلائے جائیں ۔
نواز شریف دور میں جب سی پیک پر کام زوروں پر جاری تھا تمام سیمنٹ فیکٹریاں بھاری منافع کما رہی تھیں لیکن عسکری سیمنٹ کا منافع اس تیزی میں بھی بہت کم تھا اور حصص بازار میں اس کے حصص کی قیمت بھی سب سے کم تھی اور اب تو مارکیٹ میں مکمل مندہ ہے ۔ کیا کوئی حاضر سروس جنرل کوئی انکواری کمیٹی بنائے گا عسکری سمینٹ کی مہنگی مشنری درامد کرنے والے نیک لوگ کون تھے؟ کیا کوئی حاضر سروس جنرل انکواری کرائے گا عسکری سیمنٹ کا سائلو کیوں گر گیا تھا، کیا ڈیزائین غلط تھا، کیا ڈائزئین ٹھیک تھا لیکن بنایا غلط گیا تھا ۔ نواز شریف کے 40 سال پہلے کے لندن فلیٹ کے معاملہ پر تو گلی گلی میں شور ہے ایسے نعرے بلند ہو جاتے ہیں، کیا جو لوگ ہمارے اداوں کو ناقص منصوبوں سے نقصان پہنچاتے ہیں ان پر بھی کوئی بات کرے گا ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے