کالم

نواز شریف اور آصف علی زرداری کا مستقبل

دسمبر 22, 2018 4 min

نواز شریف اور آصف علی زرداری کا مستقبل

Reading Time: 4 minutes

اعزاز سید / سیاسی افق

کراچی کی بینکنگ عدالت سے سابق صدرآصف علی زرداری کی ضمانت میں توسیع نے ایک بات واضع کردی ہے کہ ان کی فوری گرفتاری کا خطرہ ٹل گیا ہے۔ تاہم پارلیمینٹ سے نااہلی کی تلوار سر پر ضرور لٹک رہی ہے جو کسی بھی وقت چل سکتی ہے ۔ گرفتاری ممکنہ طور پر ٹرائل کورٹ میں مقدمے کی سماعت اورفیصلے کے بعد ہی عمل میں آئے گی۔ بالکل ایسے ہی جیسے سپریم کورٹ نے پہلے نوازشریف کو نااہل کرکے اقتدار سے رخصت کیا اور پھر احتساب عدالت نے انہیں جیل بھیجا۔

ادھر پیر کے روز نوازشریف کے بارے احتساب عدالت العزیزیہ سٹیل ملز اور فلیگ شپ کمپنیز کیس میں اپنا فیصلہ سنائے گی۔ اب تک کے شواہد اور اشارے بتاتے ہیں کہ نوازشریف ایک بار پھر اڈیالہ جیل  بھیج دئیے جائیں گے ۔ ایسا ہونا ایک عام بات ہوگی جبکہ ایسا نہ ہونا غیر معمولی۔ فی الحال کسی غیر معمولی بات کا امکان نہیں۔ ویسے بھی نوازشریف کے تمام معاملات راولپنڈی میں ایک رئٹائرڈ سرکاری افسر کے گھر کے ڈرائنگ روم میں طے ہوتے ہیں۔ فی الحال اس ڈرائنگ روم سے کسی ڈیل کی کوئی خبر نہیں۔

نوازشریف اور آصف علی زرداری دو مکمل طور پر الگ پس منظر اور الگ الگ خوبیوں اور خامیوں کے حاملکردار ہیں ۔ دونوں کے سیاست کے بارے میں الگ الگ نظرئیے اور جماعتیں ان کی شناخت ہیں مگر ان کی زندگیوں کے بعض پہلو ایک دوسرے سے بہت مماثلت رکھتے ہیں ۔ مثال کے طور پر نوازشریف اور آصف علی زرداری اپنے اپنے دور اقتدار میں مختارکل تھے۔ ان کا اشارہ ابرو لوگوں کی زندگیاں بدلنے میں مرکزی کردارادا کرتا رہا۔ دونوں نے اقتدار کے مزے لوٹے ، دونوں پر کرپشن کے الزام لگے۔ دونوں نے جیل کی کال کوٹھڑیاں دیکھیں، مقدمات بھگتے اور گھوم پھر کر پھر وآپس اقتدار میں آَئے۔

نوازشریف اور آصف زرداری دونوں کی سیاست کا آغاز بھی بھٹو کے زریعے ہی ہوا۔ نوازشریف کو ان کے والد میاں شریف ذوالفقارعلی بھٹو کی طرف سے صنعتیں قومیائے جانے کی پالیسی کے خلاف سیاست میں لائے کیونکہ اس پالیسی نے ان سے ان کی فیکٹری چھین لی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ پیسہ تو ان کے پاس بھی ہے سیاست میں ان کا بیٹا آئے گا تو کاروبار بھی خوب جمے گا۔ ادھر آصف علی زرداری نے بھی سیاست کا آغاز بھٹو سے ہی کیا یعنی بھٹو کی بیٹی سے شادی انہیں سیاسی منظر نامے پرلائی اور بے نظیربھٹو کی موت نے انہیں پیپلزپارٹی بھی تحفے میں دے دی۔

نوازشریف اور آصف علی زرداری دونوں اپنی عمروں کے آخری حصے میں ہیں اور دونوں چاہتے ہیں کہ ان کی اولادیں سیاست میں ان کی وارث رہیں۔ اتفاق دیکھئیے کہ دونوں کو آج یکساں صورتحال کا سامنا ہے ۔ جو واقعات سال ۲۰۱۷ اور ۱۸ میں نوازشریف کے ساتھ  رونما ہوئے معمولی تبدیلیوں کے ساتھ وہی رواں سال آصف علی زرداری کے ساتھ رونما ہورہے ہیں اور توقع ہے کہ یہ سلسلے آئندہ سال بھی جاری رہے گا۔

میرا ہرگز دعوی نہیں کہ پاکستانی سیاست کے یہ دونوں کردار مکمل طور پر صاف ستھرے اور کرپشن سے پاک ایسے فرشتے ہیں جو صرف اور صرف ملک کی بہتری کے لیے دن رات بسرکرتَے ہیں لیکن میرا یہ دعوی ضرور ہے کہ دونوں کے ساتھ انصاف نہیں ہوا اور دونوں کے ساتھ ایک فارمولہ سکرپٹ کے تحت برتاو کیا گیا ۔ جس کا مقصد بعض ان دونوں کو ملکی سیاست سے آوٹ کرنا ہے۔

کہتے ہیں سیاستدان جتنا پرانا ہو اتنا ہی تجربہ کاراور کائیاں ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں قومیں تجربہ کار سیاستدانوں کی عقل اور بلاغت سے فاِئدہ اٹھایا جاتا ہے ۔ سیاستدان بھی اپنے تجربوں کو اگلی نسل میں منتقل کرتے ہیں۔ نئی نسلیں ان کے تجربوں اور اپنی عقل کی مشترکہ کاوش سے ملکوں اور قوموں کو آگے لے جاتی ہیں۔

پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہوتا ۔ اول تو ہمارے سیاستدان کتابیں لکھتے ہیں نہ لیکچر دیتے ہیں دوئم ہمارے سیاستدانوں کو طاقت کے مراکز میڈیا کے زریعے عوام میں اتنا بدنام کرتے ہیں کہ اقتدار سے رخصتی کے بعد ان کے خلاف کیسز بنا کر ان کا تمسخر آڑایا جاتاہے۔

اسوقت آصف علی زرداری کو جعلی اکاونٹس کیس اور نوازشریف کو قومی احتساب بیورو کے بنائے گئے ریفرنسز کا سامنا ہے ۔ ان سب کے پیچھے طاقت کے مراکز اپنا کام کررہے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان کی بڑی خواہش تھی کہ نوازشریف کے ساتھ آصف علی زرداری بھی نیا سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گذاریں۔ اس خواہش کا اظہار انہوں نے ایک حالیہ اجلاس میں بھی کیا تھا۔ مگر ہر بات اورعمل پر جمع تفریق کرنے والوں نے فیصلہ کیا کہ زرداری کوفوری گرفتار نہ کیا جائے۔ فی الحال ایسا کرنا حماقت ہوگی۔

سوچ یہ ہے کہ زرداری کو پارلیمینٹ سے نااہل کروایا جائے اور پھر احتساب عدالت سے انہیں بھی سزا ہو اور وہ بالکل اسی طرح جیل جائیں کہ جیسے نوازشریف جیل گئے تھے۔ اس سارے اقدام کا مقصد انصاف ہرگز نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد کچھ آئینی تبدیلیاں اور چند حساس موضوعات پر خاموشی ہے ۔ ان حساس موضوعات کا اس کالم میں زکر ممکن نہیں۔نوازشریف اور زرداری فی الحال خاموشی کا وعدہ کرنے کو تیار ہیں نہ کسی آئینی تبدیلی کا۔ دونوں انکار کررہے ہیں اور یہی انکار ان کی سیاسی زندگی ہے۔

نوازشریف اور زرداری کا انکار انہیں بار بار جیل تو بھیج سکتا ہے مگر سیاست سے بے دخل نہیں کرسکتا۔ اگر وہ یا ان میں سے کوئی ایک کسی کے کہنے پر کچھ آئینی تبدیلیاں لانے پر حکومت کاساتھ دینے کے لیے تیار ہوگیا۔ تو شائد وقتی طور پر اسے اقتدار سے حصہ مل جائے اور جیل کی سزا سے بچ جائے مگر دونوں میں ایسا کرنے والا تاریخ کی سزا سے ہرگز بچ نہیں پائے گا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے