کالم

بے نظیر قتل کا معمہ کیوں حل نہ ہوا

دسمبر 29, 2018 5 min

بے نظیر قتل کا معمہ کیوں حل نہ ہوا

Reading Time: 5 minutes

5 اکتوبر 2007 کی صبح ٹھیک دس بجے میں سینیٹر صالح شاہ کی پارلیمنٹ لاجز اسلام آباد میں واقع سرکاری رہائش گاہ کے دروازے پر موجود تھا۔

سینیٹر صالح شاہ فاٹا سے سینیٹ کے رکن تھے مگر اہم بات یہ تھی کہ ان دنوں سیکورٹی اداروں کے کچھ اہلکاروں کو بیت اللہ محسود اور اسکے ساتھیوں نے اغوا کر رکھا تھا۔ صالح شاہ سیکورٹی اداروں اور بیت اللہ محسود کے درمیان انہی اغوا شدہ اہلکاروں کی بازیابی کی کوششیں کررہے تھے۔ دونوں نہ صرف ایک ہی مدرسے میں پڑھے پرانے دوست تھے بلکہ کشمیر کے محاذ پر بھارت کے خلاف اکٹھے جہاد میں بھی شریک رہ چکے تھے۔ صالح شاہ نے بندوق چھوڑ کر سیاست کا راستہ اختیار کیا اور سینیٹر بن گئے مگر بیت اللہ محسود نے ریاست پاکستان سے جنگ اختیار کرلی۔

ان دنوں میں ایک انگریزی اخبار سے وابستہ تھا۔

خودکش حملہ آوروں اور ان کے ماسٹر مائنڈز کے بارےمیں تفصیلات اکٹھا کرکے اس موضوع پر خبریں دینا بھی عروج پر تھا۔اسی دلچسپی نے اس بارے میں کتاب لکھنے پر مائل کردیا اور میرے دل میں کالعدم تحریک طالبان کے بانی سربراہ بیت اللہ محسود سے ملاقات کی خواہش پیدا ہو گئی۔ یہی خواہش مجھے سینیٹر صالح شاہ کے دروازے پہ لے آئی تھی۔ صالح شاہ، بیت اللہ کے قریبی تھے جو ملک میں ہونے والے خودکش حملوں میں ذمہ دار ٹھہرایا جاتا تھا جن میں سے وہ اکثر کی ذمہ داری بھی قبول کرتا تھا۔ ان دنوں وہ تیرہ گروپوں کو متحد کرکے تحریک طالبان پاکستان کی بنیاد رکھ رہا تھا۔

سیدھی سادی سادہ طبیعت کے حلیم طبع سیاستدان کی رہائش گاہ کا دروازہ غالباً ان کے صاحبزادے نے کھولا تھا۔ ڈرائنگ روم بالکل سادہ تھا کسی بھی تعیش اور آرائش سے پاک۔میں نے بیت اللہ سے ملاقات کی خواہش اور مدعا بیان کیا تو صالح شاہ نے ملاقات کروانے کا وعدہ کر لیا۔ باتوں باتوں میں شاہ صاحب نے بتایا کہ بیت اللہ نے مطالبات ماننے پر تاخیر ہونے کے باعث کچھ سیکورٹی اہلکاروں کو قتل کردیا۔ میں نے اس بارے میں اپنی نوٹ بک پر نوٹس لئے اور اسے میز پر رکھ دیا۔

جس روز میری صالح شاہ سے ملاقات ہورہی تھی اس سے دو روز قبل ہی اس وقت کے فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف اور جلاوطن بے نظیر بھٹو کے رابطوں اورمبینہ این آر او پر دستخط کرکے ساتھ مل کر چلنےکی خبریں اخباروں کی زینت بن چکی تھیں۔ بے نظیر بھٹو جلاوطنی ختم کرکے وطن واپسی کا منصوبہ بنا رہی تھیں۔ میں نے شاہ صاحب سے عرض کی کہ جناب مشرف اور بے نظیر تو این آر او پردستخط کررہے ہیں، دونوں نے ہاتھ ملا لیا ہے۔لگتا ہے اب آپ کے دوستوں کی خیر نہیں ہوگی۔ میں واضح طور پر اس وقت بیت اللہ محسود اور دیگر انتہا پسندوں کے بارے میں بات کررہا تھا۔

’’ ہاں امیر صاحب (بیت اللہ محسود کو اس وقت ان کے قریبی لوگ امیر صاحب کہا کرتے تھے) کو بھی اس کا علم ہے میری گزشتہ رات ملاقات میں ان سے اس موضوع پر بات ہوئی ہے، وہ کہتے ہیں کہ،بے نظیر بھٹو امریکی ایجنٹ ہیں،ہم نے ان کے استقبال کے لئے بندے بھیج دئیے ہیں‘‘۔

سینیٹر صالح شاہ کے الفاظ میرے لئے کسی بجلی کے کرنٹ سے کم نہیں تھے۔ یہ بے نظیر بھٹو کو قتل کرنے کا واضح منصوبہ تھا۔میں نے ان سے کہا کہ یہ تو بڑی اہم بات ہے۔ پھر میں نے میز پر رکھی نوٹ بک اٹھائی اور نوٹس لئے اور دوبارہ ان سے پوچھا کہ کیا اسکا مطلب ہے کہ انہوں نے بے نظیر بھٹو کے لئے خودکش حملہ آور بھیج دئیے ہیں۔ صالح شاہ نے کہا کہ نہیں ’’میری طرف سے خودکش حملہ آور نہ لکھئے گا ‘‘۔ یہ شاہ صاحب کی بھی غالباً کسی مرکزی دھارے کے انگریزی اخبار کے صحافی سے پہلی ملاقات تھی جو آگے چل کر ایک دھماکہ ثابت ہونے والی تھی۔

دوسرے روز میری خبر کو نمایاں طور پر اخبار میں جگہ دی گئی ۔ میری خبر میں بے نظیر بھٹو پر ممکنہ خودکش حملوں کا ذکر موجود تھا تاہم صالح شاہ صاحب کی تاکید کے مطابق ان سے منسوب بیان میں صرف اتنا لکھا گیا کہ بیت اللہ نے بے نظیر بھٹو کے استقبال کے لئے بندے بھیج دئیے ہیں۔

اخبار میں خبر کی اشاعت کسی دھماکے سے کم نہیں تھی۔ تمام بین الاقوامی اور مقامی ٹی وی چینلز اور اخباروں نے اسے جگہ دی۔ ادھر بیت اللہ محسود نے بھی اس کی تردید جاری کی اور مجھے پتہ چلا کہ وہ سینیٹر صالح شاہ سے ناراض بھی ہوا۔ صالح شاہ نے مجھے فون کیا اور کہا کہ میں نے اپنے بیان میں خودکش حملوں کی بات تو نہیں کی تھی۔ یہ ٹی وی چینل ایسا کیوں کہہ رہے ہیں ؟ میں نے وضاحت کی اور بتایا کہ یہ میری خبر کا ترجمہ ہے تاہم آپ کے بیان میں میں نے وہی بات شائع کی ہے جو تین بار آپ سے پوچھنے کے بعد لکھی تھی۔

بے نظیر بھٹو 18 اکتوبر 2007 کو وطن واپس آئیں تو ان پر حملے ہو گئے۔ اگلے روز جیو نیوز پر معروف صحافی حامد میر نے اپنے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘ میں اسی خبر کے حوالے سے سینیٹر صالح شاہ کو فون پر لیا تو انہوں نے واضح طور پر کہا کہ میں نے اپنے بیان میں خودکش حملوں کی کوئی بات نہیں کی۔ پروگرام کے بعد میں نے محترم حامد میر سے رابطہ کرکے ان سے گلہ کیا کہ اس معاملے پر آپ نے مجھ سے تو پوچھا ہی نہیں۔حامد میر نے مجھے اپنے پروگرام کے لئے ریکارڈ کر لیا اور سینیٹر صالح شاہ کو اسٹوڈیو میں بلا لیا۔ جب میرا انٹرویو چلا تو شاہ صاحب نے اس پر تبصرے سے گریز کیا۔ یہ معاملہ تو حل ہو گیا مگر کچھ عرصہ بعد بے نظیر بھٹو کو 27 دسمبر کو راولپنڈی میں قتل کردیا گیا۔ مقدمہ درج ہوا اور پانچ ملزم بھی پکڑے گئے۔

ایک سال قبل31اگست 2017کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے بے نظیر بھٹو قتل کیس کے پانچوں زیرِ حراست ملزمان اعتزاز شاہ، حسنین گل، رفاقت حسین، شیر زمان اور عبدالرشید کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ اس کے بعد اعتزاز شاہ کو ڈی آئی خان سے رہا کردیا گیا جبکہ باقی ملزمان پر دیگر کیسز ڈال کر تاحال جیل میں رکھا گیا ہے۔

اس قتل پر اقوام متحدہ کے کمیشن، پنجاب پولیس اور ایف آئی اے سمیت دیگر اداروں نے تحقیقات کیں۔ جن میں دیگر ناموں کے ساتھ اسامہ بن لادن کے کردار کا بھی ذکر تھا۔بے نظیر کے قتل پر بہت سی کتابیں بھی لکھی گئیں لیکن کالعدم تحریک طالبان کے موجودہ سربراہ مفتی نور ولی محسودنے رواں سال کے آغاز میں منظر عام پر آنے والی اپنی کتاب ’’انقلابِ محسود‘‘ میں بے نظیر بھٹو کے قتل میں اپنی جماعت کے کردار کا اعتراف کرکے طالبان کے اس قتل میں ملوث ہونے یا نہ ہونے سے متعلق ایک تنازعے کو کافی حدتک حل کردیاہے۔

مگر اس کہانی سے جڑےبہت سے تنازعات آج بھی حل طلب ہیں۔ ان میں سب سے اہم اسامہ بن لادن کا اس قتل سے تعلق بھی ہے۔ بے نظیر کے قتل کے چار سال بعد اسامہ بن لادن کو 2011میں ان کے ایبٹ آباد میں واقع خفیہ مقام پر امریکی حملے میں مار دیا گیا۔ حملے کے بعد پاکستانی حکام نے اسامہ کے ٹھکانے سے دیگر دستاویزات کے ساتھ ایک مختصر سا رقعہ بھی برآمد کیا جس کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اسامہ کو بے نظیر کے قتل کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے مبارکباد بھی دی گئی تھی۔ اسامہ مر چکا ہے مگر بے نظیر کے قتل کا معمہ حل نہیں ہوا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے