متفرق خبریں

ڈی جی اینٹی کرپشن کو مکمل اختیار ہے، سپریم کورٹ

جنوری 10, 2019 2 min

ڈی جی اینٹی کرپشن کو مکمل اختیار ہے، سپریم کورٹ

Reading Time: 2 minutes

سپریم کورٹ نے پنجاب کے محکمہ اینٹی کرپشن کے ڈائریکٹر جنرل کے اختیارات کیلئے بنائے گئے قواعد کے کیس کی سماعت کی ہے ۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے سپریم کورٹ کی جانب سے معطل کئے گئے رولز کا دفاع کرنے کی بات کی ۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ ڈی جی کو ہر انکوائری کیلئے حکومت سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں، محکمہ اینٹی کرپشن کو خود سے کام کرنے کا اختیار نہیں ہوگا تو کیا حیثیت رہ جائے گی ۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے محکمہ اینٹی کرپشن کے ڈی جی کے اختیارات کو رولز کے ذریعے کم کرنے پر لئے گئے ازخود نوٹس کی سماعت کی ۔ ڈی جی اینٹی کرپشن حسین اصغر نے عدالت کو بتایا کہ ڈی جی اینٹی کرپشن کے اختیارات چیف سیکرٹری کو دے دئیے گئے ہیں، ڈی جی گریڈ 18 اور اس سے زیادہ کے افسر کے خلاف بغیر اجازت کارروائی نہیں کرسکتا، وزیراعلی اور چیف سیکرٹری کی اجازت ضروری ہے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ قواعد تو عدالت معطل کر چکی ہے، ہم نے آپ کو اختیار دیا ہے، انہوں نے ڈی جی محکمہ اینٹی کرپشن کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ پاور انجوائے کیجئے، اختیار نہیں ہوگا تو کیا حیثیت رہ جائے گی ۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے کہا کہ گزشتہ رات اس کیس کا معلوم ہوا، تیاری کے لیے مہلت دی جائے ۔ عدالت کے پوچھنے پر احمد اویس نے مؤقف اختیار کیا کہ ہمیں مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص کو اس طرح کا مکمل اختیار نہیں ہونا چاہئے، نیب سے بھی اسی طرح کا ایشو آ رہا ہے ۔ حسین اصغر نے کہا کہ مقدمے کو لاہور میں اتوار کے دن سن لیا جائے ۔

واضح رہے کہ پنجاب اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے 2014 میں بنائے گئے رولز کے مطابق چیف سیکرٹری اور وزیراعلی کسی بھی کیس کی انکوائری، تفتیش یا حتمی ہونے پر بھی اس کی فائل منگوا کر اس پر حکم صادر کر سکتے ہیں ۔

ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے ان رولز میں ترمیم کی ہدایت کی تھی اور کہا تھا کہ احتساب سب کا ہوگا ۔ تاہم ڈی جی اینٹی کرپشن کی جانب سے وزیراعظم کی ہدایت کے بعد جب رولز کی ترامیم کا خط لکھا گیا تو وزیراعلی پنجاب کے دفتر نے جواب دیا کہ اس کیلئے متعلقہ محکمہ ضابطہ کار کے مطابق رابطہ کرے ۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ طویل دفتری طریقہ کار کی وجہ سے محکمہ اینٹی کرپشن کے افسران کو مختلف انکوائریوں اور تفتیش میں مشکلات کا سامنا ہے اور ہر معاملے میں عدالتی حکم کیلئے رجوع کرنا پڑتا ہے ۔

 

 

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے