کالم

منہ چڑانا بری بات ہے

جنوری 19, 2019 5 min

منہ چڑانا بری بات ہے

Reading Time: 5 minutes

عمار مسعود

میرے سامنے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک وڈیو بار بار چل  رہی ہے۔ سابق چیف جسٹس  نسیم حسن شاہ کا انٹرویو ہے جو جیو چینل پر مدتوں پہلے چلا تھا۔ اس انٹرویو میں جسٹس ریٹائر نسیم حسن شاہ ، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کے متعلق گفتگو کر رہے ہیں۔ اپنے بیان میں فرماتے ہیں کہ مولوی مشتاق، بھٹو کے دشمن تھے انہیں اس بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہئے تھا اور بھٹو کے وکیل نے ہمیں غصہ دلایا اور اس وقت کا ماحول ایسا تھا  کہ میں نے بھی فیصلے سے اختلافی نوٹ نہیں لکھا حالانکہ اس فیصلے سے مجھے اختلاف تھا۔ اینکر نے سوال کیا کہ اگر بھٹو کو پھانسی نہ ہوتی تو کیا ملک کی تاریخ مختلف ہوتی؟ چیف جسٹس صاحب نے جواب دیا مجھے یہ نہیں پتہ کہ تاریخ مختلف ہوتی یا نہ مگر بھٹو کی جان ضرور بچ سکتی تھی۔ جسٹس صاحب کی گفتگو کی راہ میں شائد کوئی حجاب مانع آ گیا ورنہ یہ سب جانتے ہیں کہ اگر بھٹو کو پھانسی نہ ہوتی تو اس ملک کی تاریخ  بہت مختلف ہوتی۔ ا گر بھٹو کو پھانسی نہ ہوتی تو شائد ضیاء الحق کا دور قبیح ہم پر نہ گزرتا۔ شائد مذہب اس شدت سے ہماری سیاست میں در نہ آتا۔ شائد ہم افغان جنگ میں نہ کودتے ، شائد ہم پر دہشت گردی کے الزامات نہ لگتے، شائد بم دھماکوں میں مرنے والوں کی تعداد ستر ہزار تک نہ پہنچتی۔ لیکن یہ سب ہوا اور اس ہونے کہ وجہ یہ تھی کہ مولوی مشتاق بھٹو کے جانی دشمن تھے اور چیف جسٹس نسیم حسن شاہ "مخصوص  حالات” کی بنا پر اختلافی نوٹ لکھنے سے قاصر رہے۔

یہ صرف ایک کیس کی داستان نہیں ہے بلکہ اس طرح کی ہولناک مثالوں سے ہماری عدالتی تاریخ بھری پڑی ہے۔ عدلیہ اگر "مخصوص حالات” کا خیال نہ رکھتی تو کبھی اس ملک میں مارشل لاء نہ لگتا، کبھی پی سی او ججز پیدا نہ ہوتے ، کبھی نظریہ ضرورت دریافت نہ ہوتا، کبھی آئین کے ساتھ  کھلواڑ نہ ہوتا ،کبھی سیاستدانوں کی اس طرح تذلیل نہ ہوتی۔ کبھی پارلیمان کی کھلے عام توہین نہ ہوتی۔ کبھی عوام کے مینڈیٹ کا تماشا نہ بنتا، کبھی ووٹ کی طاقت اسطرح پامال نہ ہوتی۔ کبھی آئین میں ففٹِی ایٹ ٹو بی جیسی روایات نہ ہوتیں ، کبھی باسٹھ، تریسٹھ جیسی انتقامی شقیں ایجاد نہ ہوتیں۔ کبھی جمہوری روایات پر سمجھوتہ نہ ہوتا۔ کبھی ہماری تاریخ کی کتاب میں آدھے سے زیادہ صفحے سیاہ نہ ہوتے۔کبھی نیب جیسے منتقم المزاج ادارے جنم نہ لیتے۔  کسی وزیر اعظم کا دور زور زبردستی سے ختم نہ ہوتا۔ پھانسی نہ ہوتی توجمہوریت کا تسلسل ہوتا ، ملک کی بین الاقوامی ساکھ بھکاریوں سے بہتر ہوتی۔ صحت ، تعلیم اور انفراسٹرکچر جیسے معاملات دہائیوں پہلے حل ہو چکے ہوتے۔ معاشرے میں نفرت کے بجائے اعتدال ہوتا،  جہمہوری روایت اور تحمل پروان چڑھتا مگر ایسا کچھ نہیں ہوا اس لیئے کہ ایک شخص نے ذاتی عناد کی بناء پر ایک منتخب وزیر اعظم کو پھانسی لگا دیا اور دوسرا "مخصوص حالات” کی وجہ سے دہائیوں چپ سادھے رہا۔ المیہ یہ ہے کہ اس سب کے ہونے کا علم ہمیں مدتوں بعد ہوا مدتوں تک ہمیں ،ہماری عدالتی تاریخ ہمیں کچھ اورہی سبق پڑھاتی رہی۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار  اکتیس دسمبر دو ہزار سولہ  کو ایوان انصاف  کی صدرکرسی پر منصف اعلی بن کر متمکن  ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نواز شریف وزیر اعظم تھے ۔ ملک پہلی دفعہ اپنے دوسری جمہوری دور کی تکمیل کی جانب بڑھ رہا تھا۔ ترقی کا دروازہ رفتہ رفتہ پاکستان پر کھل رہا تھا۔ شاہراہیں تعمیر ہو رہی تھیں، میڑوز بن رہی تھیں۔ سٹاک مارکیٹ آئے دن ریکارڈ بنا رہی تھی، ترقی کے منصوبوں کا افتتاح ہو رہا تھا۔ لوڈ شیڈنگ پر قابو پایا جا رہا تھا، سی این جی کی لمبی لمی لائنیں ختم ہو گئی تھیں، سی پیک گیم چینجر کے طور پر متعارف ہو رہا تھا۔ ریلوے کا نظام بہتری کی طرف گامزن تھا، کراچی میں امن ہو رہا تھا، دہشت گردی کم ہو رہی تھی، وژن دو ہزار پچیس پہ کام ہو رہا تھا، بین الاقوامی برادری پاکستان کو ایشن ٹائیگر قرار دے رہی تھی۔ لاہور روشنیوں کا شہر بن رہا تھا ، صحت کے میدان میں پی کے ایل آئی جیسے پراجیکٹ زیر تکمیل تھے، معذور افراد کے لیئے خدمت کارڈ پنجاب میں متعارف ہو چکا تھا۔ توقع کی جا رہی تھی کہ اگلے الیکشن میں ن لیگ کی حکومت ہی قائم ہو گی۔ ایسے میں حکومت وقت قانون سازی سے مبرا ہو کر ترقیاتی کاموں میں جٹی ہوئی تھی۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ہماری تاریخ میں کچھ انوکھا نہیں ہوا۔

سابق چیف جسٹس نے اپنا دور اقتدار انصاف کی فراہمی کے بجائے سیاستدانوں کی تضحیک میں صرف کیا۔ اپنے ادارے کی پرواخت کے بجائےا نتقامی اقدامات کیئے۔شہرت کی خاطر ایسے اقدامات کیئے جو ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔ ذاتی عناد میں ایسے فیصلے بھی کیئے جو ان کے منصب کو نہیں جچتے تھے۔ آج انکے دور اقدار کے اختتام پر نہ اس ملک میں کوئی ڈیم بنا، نہ تھر میں پانی کی مشکلات ختم ہوئیں، نہ ہسپتالوں کی حالت بہتر ہوئی، نہ پرائیوٹ سکولوں  نے فیسیں کم کیں، نہ ملک کی آبادی میں کوئی خاطر خواہ کمی ہوئی، نہ ذہنی معذور افراد کے لیئے کوئی نئے ادارے بنے نہ کسی مربوط پالیسی کا اجراء ہوا، نہ پارلیمان کا تقدس قائم رہا ،نہ ووٹ کی حرمت برقرار رہی۔ بس انتقامی انصاف کی روش قائم رہی۔ سستی شہرت کے لیئے ٹی وی پر بریکنگ نیوز چلتی رہی۔ سیاستدانوں کے خلاف رکیک جملے ٹی وی سکرینوں کی زینت بنتے رہے۔ بس”مخصوص حالات” پوری شدت سےاپنا جادو جگاتے رہے۔مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے عوامی نمائندوں کے خلاف نفرت اس دور کا خاصہ رہی۔

جمہوریت کے خلاف اس اعلان جنگ میں انیس لاکھ مقدمات انصاف کی تلاش میں سرگرداں رہے۔ سائلین انصاف کے در کے سامنے سر پٹکتے رہے۔ نچلی عدالتیں اپنی روش پر قائم رہیں۔ دھونس دھاندلی اور رشوت کا بازار انصاف کے گھر میں گرم رہا۔ انصاف کے متلاشی جا بجا سابق چیف جسٹس سے گڑ گڑا کر رحم کی اپیلیں کرتے رہے۔ مگر انصاف کا در صرف سیاسی مقدمات کے لیئے کھلا رہا۔ صرف سیاستدانوں پر کیچڑ اچھالنے کی اجازت دی گئی

انصاف کے اس دور پر آشوب کے اختتام پر یہ سوچ سوچ کر ہول آتا ہے کہ  دہائیوں بعد جب آج کے بچے جوان ہو چکے ہوں گے، ادھیڑ عمر بوڑھے ہوچکے ہوں گے اور بوڑھے قبروں میں اتار دیئے گئے ہوں تو اس وقت کسی ٹی وی چینل پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نمودار ہوں گے اور کہیں گے کہ اس وقت ہمیں غصہ آ گیا تھا اور "مخصوص حالات” کی وجہ سے ہم درست فیصلہ کرنے سے قاصر رہے تھے تو اس وقت تک اس ملک کی کتنی نسلیں برباد ہو چکی ہو ں گی۔ کتنی زندگیاں انصاف کی تلاش میں در بدر ہو چکی ہوں گی۔ کتنے ادارے اپنی حیثیت کھو چکے ہوں گے۔ اس ملک کی تاریخ جانے کتنے باب الم رقم کر چکی ہو گی۔ اس سماج میں کتنی بے انصافی بڑھ چکی ہو گی اور کتنی نسلیں اپنے مقدمات کے فیصلے کے انتظار میں مر چکی ہوں گی۔ آج کے دن وہ تمام لوگ جو انصاف کی تلاش میں تھے، ماتم کناں ہو ں گے۔ ماتم کرنے والوں کے ہجوم میں بس ایک راو انوار ہو گا جوزیرلب تبسم کے ساتھ اس سارے نظام  انصاف کا منہ چڑا رہا ہو گا۔ اور اس سارے سماج میں کوئی مائی کا لال ایسا نہیں ہو گا جو اس کو بتائے کہ قصرانصاف کی  خود ساختہ فصیلوں کو منہ چڑانا بری بات ہے ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے