کالم

ساہیوال واقعہ کی دو ایف آئی آرز سپریم کورٹ فیصلے کی خلاف ورزی ہے

جنوری 20, 2019 6 min

ساہیوال واقعہ کی دو ایف آئی آرز سپریم کورٹ فیصلے کی خلاف ورزی ہے

Reading Time: 6 minutes

اسلام آباد (رپورٹ : خالدہ شاہین رانا)

تھانہ یوسف والہ ضلع ساہیوال (پنجاب )پولیس نے پھرتیاں دکھاتے ہوئے انٹی ٹیررسٹ ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی ) کی ساہیوال کے علاقہ قادر آباد میں جی ٹی روڈ پر ہونیو الے ایک مشکوک وقوعہ کے حوالے سے ہفتہ کے روز سی ٹی ڈی کے انچارج سب انسپکٹر صفدر حسین کی مدعیت میں درج کی جانے والی ایف آئی آر کی موجود گی کے باوجود ، مقتولین کے ورثاء کوخاموش کروانے اور احتجاج کے خاتمہ کے لئے چیف جسٹس آف پاکستان ، مسٹر جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے 7رکنی لارجر بنچ کے ایک حالیہ فیصلے کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اتوار کے روزانٹی ٹیررسٹ ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی ) کے اہلکاروں کی جانب سے دن دھاڑے مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں کار سواروں پر آٹو میٹک اسلحہ سے سیدھی گولیاں برسا کر 2مرد او2خواتین کے قتل عام اور ایک بچے کے زخمی ہونے سے متعلق مقتول خلیل کے بھائی کی تحریری درخواست پر سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف قتل اور انسداد دہشت گردی آرڈیننس کی دفعا ت کے تحت دوسری ایف آئی آر درج کرتے ہوئے معاملہ بیلنس کردیا ہے ، اس سے قبل ہفتہ کے روز وقوعہ کے فوری بعد اسی تھانے میںہی سی ٹی ڈی کے انچارج سب انسپکٹر صفدر حسین کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 302/334/353 اور انسداد دھشت گردی کی دفعہ 7اور ممنوعہ اسلحہ رکھنے سے متعلق ترمیمی اسلحہ آرڈیننس 1965کی دفعہ 13-2(c)20 کے تحت ایف آئی آر درج کرکے اپنا کام پورا کرلیا تھا ۔

مبینہ طور پرایک ہی وقوعہ کی دوسری نئی ایف آئی آر قتل ہونے والے خاندان اور شہریوں کی جانب سے مقتولین کی نعشیں فیروز پور روڈ لاہور میں رکھ کر احتجاج کر نے کے بعد دبائومیں آکر درج کی گئی ہے جسکے بعد لواحقین کی جانب سے جاری احتجاجی مظاہرہ بھی ختم کردیا گیا ہے،احتجاجی مظاہرہ کے دوران متاثرہ خاندان کے افرد نے حکومت پنجاب اور پولیس حکام کے خلاف زبردست نعرے بازی کی اور مبینہ باوردی قاتلوںکی گرفتاری کا مطالبہ کیا تھا،اوراحتجاج کے باعث علاقے میں ٹریفک کی روانی بری طرح متاثر ہوئی تھی ، یاد رہے کہ 23 مئی 2018 کوجسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم ،جسٹس مقبول باقر ،جسٹس منظور احمد ملک ،جسٹس طارق مسعود ،جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے 7 رکنی لارجر بنچ نے ایک ہی وقوعہ کی دوالگ الگ ایف آئی آرز دراج ہونے یا نہ ہونے کے قانونی نکتہ سے متعلق 5مئی کومحفوظ کیا گیا فیصلہ جاری کر تے ہوئے قرار دیا تھا کہ ملک بھرکی پولیس ایک کیس میں پہلی ایف آئی آر کے اندراج کے بعد کسی بھی قسم کی دوسری ایف آئی آر درج نہیں کرسکتی ہے  ۔

عدالت نے قرار دیا تھا کہ کسی وقوعہ پر نیا موقف سامنے آنے پر نئی ایف آئی آ ر کے اندراج کا کوئی جواز نہیں ہے،جبکہ ایف آئی آر کے اندراج کے باوجود جب تک ملزم کے خلاف ٹھوس شواہد یا مواد سامنے نہ آئے اس وقت تک تفتیشی اسے گرفتار بھی نہیں کرسکتا ہے، عدالت نے قرار دیا تھاہے کہ تحقیقات کے دوران تفتیشی افسر نیا پہلو سامنے آنے پر متعلقہ شخص کا بیان قلمبند کرکے وقوعہ کے تمام پہلوئوں کی تحقیقات کر کے سچ کو سامنے لائے کا پابند ہوتا ہے ،عدالت نے قرار دیا تھا کہ ایف آئی آر کے اندراج کا مقصد سچ کو سامنے لا کر اصل ملزمان کو پکڑنااور وقوعہ کی تحقیقات مکمل ہونے پر چالان متعلقہ ٹرائل کورٹ میں جمع کروا نا ہوتا ہے ،فاضل عدالت نے متعلقہ آفس کو عدالتی فیصلے کی نقول تمام صوبائی پولیس سربراہان ( آئی جی پولس) کو بھجوانے اور انہیں (آئی جی حضرات ) کو ملک بھر کی پولیس کو فیصلے سے آگاہ کرنے اور اس پر من و عن عملدر آمد کو یقینی بنانے کی ہدایت بھی کی تھی ،یہ بھی یاد رہے کہ ہفتہ کے روزسی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے ساہیوال کے علاقہ قادر آباد میں جی ٹی روڈ پر ایک مبینہ جعلی پولیس مقابلے کے دوران ایک کار پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں2مرد او2خواتین ہلاک ہو گئی تھیں جبکہ ایک بچہ زخمی اور دو بچے زندہ بچ گئے تھے ،، تاہم وقوعہ کے بعد پنجاب پولیس کی خاتون ترجمان،زندہ بچ جانے والیے بچوں ،وقوعہ کے عینی شاہدین اور انٹی ٹیررسٹ ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی ) کے ترجمان کے متضاد بیانات کے بعد یہ سارا مقابلہ بری طرح مشکوک اور ایک معمہ بن گیا ہے ، اس واقعہ کے فوری بعد سی ٹی ڈی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ مارے جانے والے افراد دہشت گرد تھے اور سی ٹی ڈی نے اعلیٰ کاررکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی تحویل سے 3 بچے بھی بازیاب کروائے ہیں،ان کی جانب سے یہ بھی دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ مقتولین دہشت گردوں کے سہولت کار تھے، جبکہ پنجاب پولیس نے اس واقعہ سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا ،جس سے شکوک و شبہات میں مزید اضافہ ہوگیا تھا ،ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر(ڈی پی او) آفس ساہیوال کے ترجمان نے میڈیا کوبتایا تھا کہ یہ سی ٹی ڈی لاہو کی کارروائی ہے اوروہ ایک زخمی اور بچ جانے والے دو بچوں کو جائے وقوعہ سے اپنے ساتھ لے گئے تھے ، ملک بھر میں سوشل میڈیا اور چینلوں میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ،جس پر وزیر اعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی اس وقوعہ کا نوٹس لیتے ہوئے فوری رپورٹ طلب کی تھی جبکہ آئی جی پنجاب پولیس، امجد جاوید سلیمی نے اس وقوعہ کا فوری نوٹس لیتے ہوئے پہلے فوری تحقیقات کا حکم جاری کیا تھا ۔

بعد ازاں محکمہ داخلہ پنجاب نے ایک پریس ریلیز کے ذریعے میڈیا کو آگاہ کیا تھا کہ ا س وقوعہ کی تحقیقات کے لیے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل ،پولیس سید اعجاز حسین شاہ جے کی سربراہی میں آئی ایس آئی اورآئی بیکے نمائندوں پر مشتمل 3 رکنی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی)تشکیل دے دی گئی ہے جو 3 روز کے اندر اندرتحقیقات مکمل کرکے اپنی رپورٹ محکمہ داخلہ کو جمع کروانے کی پابند ہے ، قبل ازیںسی ٹی ڈی نے میڈیا کو جاری کئے گئے بیان میں موقف اختیار کیا تھا کہ ہفتہ 19جنوری کی دوپہر 12 بجے کے لگ بھگ ساہیوال ٹول پلازہ کے قریب سی ٹی ڈی کی ایک ٹیم نے ایک کار اور ایک موٹر سائیکل پر سوارمبینہ دہشت گردوں کو روکنے کی کوشش کی تو انہوں نے رکنے کی بجائے ان پر فائرنگ شروع کردی، جس پر سی ٹی ڈی ٹیم نے اپنے تحفظ کے لیے جوابی فائرنگ کی اورجب دو طرفہ فائرنگ رکی تو 2 خواتین اور 2مرد،دہشت گرد اپنے دیگر 3ساتھی دھشت گردوں ہی کی فائرنگ سے ہلاک پائے گئے تھے جبکہ تینوں دیگر دھشت گرد جائے وقوعہ سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے ،سی ٹی ڈی نے مزید کہا تھا کہ مارے جانے والے افراد دہشت گردوں کے سہولت کار تھے اور ان کے قبضہ سے بھاری اسلحہ،دھماکا خیز مواد اور تین بچے بھی برآمد ہوئے ہیں ،سی ٹی ڈی کی جانب سے یہ دعوی ٰ بھی کیا گیا تھا کہ جائے وقوعہ سے فرار ہونے والوں کا تعلق عالمی دہشت گرد تنظیم داعش ” کے ساتھ ہے ،ان میں سے 2 کی شناخت شاہد جبار اور عبدالرحمن کے نام سے ہوئی ہے اور یہی دہشت گرد سابق وزیراعظم، یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کے اغوا ء میں ملوث دہشت گردوں کے ساتھی تھے،دوسری جانب اس وقوعہ سے متعلق آنے والی میڈیا رپورٹس کے مطابق وقوعہ کے عینی شاہدین نے بیان کیا تھا کہ سی ٹی ڈی اہلکاروں کی جانب سے مقتولین کی کار پر فائرنگ کی گئی تھی لیکن مقولین کی کار سے کسی قسم کی جوابی فائرنگ اور مزاحمت دیکھنے میں نہیں آئی تھی لیکن سی ٹی ڈی سی اہلکاروں نے انہیں زندھ پکڑنے کی بجائے فائرنگ کرکے مار دیا اور جب مقتولین کی نعشیں گاڑی سے باہر نکالی گئیں تو اس وقت بھی کسی قسم کا اسلحہ یا دھماکا خیز مواد دیکھنے کو نہیں ملا تھا ،وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اس وقوعہ پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ دہشت گردوں نے انسانی ڈھال استعمال کی ہے، پنجاب حکومت اس حوالے سے تفصیلی رپورٹ طلب کرے گی جبکہ پنجاب کے وزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان کا کہنا تھا کہ ہم ابتدائی تحقیقات کے بعد ہی کچھ کہہ سکتے ہیں،انہوں نے کہا کہ سی ٹی ڈی نے مشتبہ افراد کے خلاف یہ کارروائی انٹیلی جنس اداروں کی جانب سے کراچی سے گرفتار کیے گئے ایک دہشت گرد کی نشاندہی پر کی ہے ،ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر مارے جانے والے افراد دہشت گرد ثابت نہ ہوئے تو سی ٹی ڈی اہلکاروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی ۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے