کالم

اب نہیں تو کبھی نہیں

جنوری 20, 2019 4 min

اب نہیں تو کبھی نہیں

Reading Time: 4 minutes

فیاض محمود

غم ہے کہ بڑھتا جارہا ہے۔ سوچو کا سمندر گہرے سے گہر ا ہوتا جارہا ہے۔ الفاظ ہیں کہ ساتھ نہیں دے رہے۔ دل کو چیر دینے والا منظر ہے کہ آنکھوں سے اوجھل نہیں ہورہا۔ بے قراری ہے کہ بڑھتی جارہی ہے۔ وجہ وہی دل دہلا دینے والا سانحہ ساہیوال۔ منظر عام پر آنے والی ویڈیوز اور ننھی پریوں کی تصاویر اندر ہی اندر کھائے جارہی ہیں۔ سوچ سوچ کر پاگل ہوئے جارہا ہوں ۔ جب بدقسمت خلیل گھرسے نکلا ہوگا بچوں سے وعدہ کیا ہوگا۔ شادی پر جائیں گے،ڈھولک بجائیں گے،خوب ہلا گلا کریں گے، موج مستی ہو گی۔ پھر واپس لوٹ آئیں گے۔ کاروبار زندگی چلائیں گے۔شادی کا سن کر ماں کی آنکھوں پر اپنےبیٹے کا سہر ہ آرہا ہوگا۔ کبھی یہ بھی جوان ہوگا کبھی میں بھی اس کی خوشیاں دیکھوں گی۔پھر خود ہی انشا اللہ پڑھ کر دل ہی دل میں اپنے لخت جگر کی دراز عمری کی دعا کی ہوگی ۔ اریبہ نے آگے بڑھ کر بابا کا ہاتھ تھاما ہوگا۔ کان کے قریب بولی ہوگی بابا شادی پر رش ہوگا۔ ہاتھ تھامے رکھنے کی فرمائش کی گئی ہوگی۔ دلہن دیکھنے کی خواہش بھی کی ہوگی۔ باقی بچے بھی ضد کررہے ہونگے۔ گاڑی کی اگلی نشست پر بیٹھنے کے لیے بچوں میں جھگڑا بھی ہوا گا۔ شور شرابے ، ہلے گلے میں سفربھی کٹ رہا ہوگا مگر کسے خبر تھی خوشیوں کا یہ سفر غموں میں بدل جائے گا۔ بوریوالہ کی بجائے قبر منزل ٹھہرے گی۔ چنگی امر سدھ سے شروع ہونے والا سفر اڈا قادر آباد پر اختتام پذیر ہوگا۔ یہ وہی اڈا ہے جہاں کبھی بچپن میں اکثر جانا ہوتا تھا۔ وہاں چچا کی گھڑیوں کی دکان تھی۔ سامنے جی ٹی روڈ پر چلتی بے ھنگم ٹریفک جان کو آتی تھی۔ پھر کنڈکٹروں کے درمیان ہر آنے والے مسافر کو اپنی گاڑی میں سوار کرنے کے لئے وہ گھمسان کا رن پڑتا کہ خدا کی پناہ۔ کئی بار تو یہ کھینچا تانی حادثے کی صورت میں بھی ختم ہوئی جب کوئی بس کسی کو اڑاتی نکل گئی ۔ آج قادر آباد کا نام سن کر سارا نقشہ آنکھوں کے سامنے آگیا۔۔یہ وہی قادرآباد ہے جہاں سٹرک پار جانے کے لیے ہمارا ہاتھ تھام لیا جاتا تھا کہیں کوئی گاڑی کچل نہ دے۔ جب اوور ہیڈ بریج بنایا گیا تو سڑک پار کرنے میں خاصی سہولت ہوگئی تھی۔ حادثات میں بھی واضح کمی واقع ہوئی تھی۔ حکومت نے انسانی جانوں کے ضیاع کو روکنے کے لیے یہ اقدامات کیے تھے۔ کئی سال ہوئے تھے وہاں پر کسی راہ گیر نے کسی گاڑی کی ٹکر سے جان نہیں گنوائی تھی ۔اب ایک بار پھر اڈا قادر آباد پر خون کی ہولی کھیلی گئی۔ پہلے گاڑی انجانے میں وہاں پر کچل چلتی بنتی تھی۔ آج اپنی منشاٗ سے چار جانیں نگلی گئیں۔ دن دیہاڑے آنکھوں میں سجے خواب چکنا چور کردیے گئے ۔ ایک لمحے میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے رگوں میں دوڑتی زندگی مار ڈالی گئی۔
بلا کی چمک اس کے چہرہ پہ تھی
مجھے کیا خبر تھی کہ مرجائے گا
گولیاں چلی ہوں گی،مقتولین چلائے ہونگی ، معافیاں مانگی گئی ہوں گی، چیخیں ماری ہونگی اور رحم کی صدائیں لگی ہونگی۔ سی ٹی ڈی اہلکار چیخ و پکار کو پس پشت ڈال کر ان آوازوں کو گولیوں کی آواز سے دباتے رہے ہونگے۔ انہیں کب معلوم تھا کہ یہ چیخیں بائیس کروڑ عوام کی آواز بن جائیں گے۔ یہ معلوم ہوتا تو شاید ہاتھ کانب جاتے۔ ننھے بچوں کو دیکھ کر دل موم ہوجاتا توپھر شادی پر جانے والے قبر میں نہ جاتے۔ لمحوں میں چار جیتے جاگتے انسانوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ وہ سو گئے مگر ان کی ٓواز بول رہی ہے۔ چلا چلا کر سوال کناں ہے۔ اے حاکم وقت ہمیں کیوں مارا ، ہمیں کس جرم کی سزا دی گئی۔ ہم تو شادی پر جارہے تھے، خوشیاں دیکھنے والے تھے۔ پھر یہ ظلم کیوں کر ہوا۔ ملک سوگ کی حالت میں ہے ۔ نیندیں اسی طرح اڑ گئی ہیں جیسے سانحہ اے پی ایس نے اڑا دی تھیں۔ کوئی اس ظلم کو آنکھوں سے دیکھنے کانوں سے سننے کے بعد کیسے سو سکتا ہے۔ خاص کرمیرے ملک کا وزیراعظم کیسے سکون کی نیند سو سکتا ہے۔ یہ وہی وزیراعظم ہے نہ جو ظلم دیکھتا تھا تو چیخ اٹھتا تھا۔ احتجاج کرتا تھا۔ انصاف دینے کی بات کرتا تھا۔ اپنے کارکنوں پر پولیس تشدد کا تشدد دیکھتا تو آئی جی پولیس کو اپنے ہاتھ سے جیل بھیجنے کے وعدے کرتا تھا۔ مجھے آج بھی وزیراعظم عمران خان کا وہ خطاب یاد ہےجس میں وہ بول رہے تھے اور حاضرین کی آنکھیں رو رہی تھیں۔ اس کی اپنی بے چینی اس کے چہرے پر عیاں تھی۔ الفاظ دل میں اتررہے تھے۔ وہ کیا کہہ رہے تھے آج میں بیان کروں گا۔ یہاں بھی لکھوں گا۔
عمران خان بولے ‘‘بلوچستان میں خشک سالی تھی۔ لوگو کے جانور مرنا شروع ہوگئے۔ لوگ اپنے علاقے چھوڑ کر شہروں کا رخ کررہے تھے۔ شہر آکر کیمپوں میں ٹھہرے۔ میں ایک کیمپ میں گیا۔ میرے پاکستانیو!! اس رات سوچ سوچ کر مجھے ڈراونے خواب آتے تھے۔ میں نے ایک عورت کو وہاں دیکھا بال بکھرے ہوئے تھے۔ پاگل بنی ہوئی تھی۔ اور روئے جارہی تھی۔ میں نے اس کے خاوند سے پوچھا تو اس نے بتایا جب خشک سالی شروع ہوئی تو ہم نے شہر جانے کا فیصلہ کیا۔ جو جانور بچے ہم ساتھ لے گئے۔ ایک معذور بیٹی بھی تھی جسے ساتھ لیجانے کے لیے پیسہ نہیں تھا۔ ہمیں اس معذور بیٹی کو چھوڑ کرجانا پڑا۔ ماں کو اپنی بیٹی کی چیخیں یاد آرہی ہیں۔ کیونکہ جب ہم جارہے تھے بیٹی چیخیں ماررہی تھی۔ کون سا معاشرہ ہے جو اپنے انسانوں کو اسطرح رکھنے کی اجازت دیتا ہے’’۔
تب عمران خان حزب اختلاف کے رہنما تھے۔وہ کچھ نہ کرسکتے تھے۔صرف وہ واقع بیان کرسکتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی انہیں رات بھر نیند نہ آئی۔ آج سانحہ ساہیوال پر ہر زبان ان سے سوال کناں ہے کون سا معاشرہ ہے جو اپنے نہتے انسانوں کو گولیوں سے بھون دیتا ہے۔ آج عمران خان کا امتحا ن ہے۔ اپنی ٹویٹس میں انہوں نے اپنے درد کا اظہار کیا ہے لیکن صرف ٹویٹس کافی نہیں، آج وہ مسند اقتدار پر بیٹھے ہیں۔ جہاں یہ واقع پیش آیا وہ صوبہ انکے پاس ہے۔ حکومت انکی اپنی ہے۔ و ہ سب کچھ کرسکتے ہیں۔ اللہ نے انہیں اختیار دیا ہے۔ گولیوں سے بچ جانے والے بچوں کو انصاف دے سکتے ہیں۔ مجھے دوہزار دس کے وہ دن یاد آرہے ہیں جب لاہور میں مال روڈ ا روڈ پر تحریک انصاف نے بینرز آویزاں کیے تھے جس پر بڑا بڑا نعرہ درج تھا جس کی ایک بار کپتان کو ضرورت ہے۔ ؛ اب نہیں تو کبھی نہیں؛۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے