متفرق خبریں

پوسٹ مارٹم رپورٹ میں درندگی ثابت

جنوری 20, 2019 2 min

پوسٹ مارٹم رپورٹ میں درندگی ثابت

Reading Time: 2 minutes

ساہیوال کے علاقے قادرآباد کے قریب آئی ایس آئی اور سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے 4 افراد کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ جاری کردی گئی جس کے مطابق 13 سالہ بچی اریبہ کو 6 گولیاں لگی جب کہ کار ڈرائیور ذیشان کو 10، نبیلہ بی بی کو 4 اور اس کے شوہر خلیل کو 13 گولیاں لگیں ۔

دوسری جانب واقعہ میں زخمی ہونے والے بچوں کو لاہور منتقل کر دیا گیا جہاں انہیں جنرل اسپتال طبی امداد دی گئی ہے، عمیر، منیبہ اور ہادیہ کو سرکاری ایمبولینس میں لایا گیا۔ معصوم عمیر کو ٹانگ میں گولی لگی ہے، منیبہ کا ہاتھ گاڑی کا شیشہ ٹوٹنے کی وجہ سے زخمی ہوا تھا ۔

گزشتہ روز ساہیوال میں ٹول پلازہ کے نزدیک سی ٹی ڈی کے مبینہ مقابلے میں 4 افراد جاں بحق اور 3 بچے زخمی ہوگئے تھے۔ جاں بحق افراد میں ایک خاتون نبیلہ، ان کا شوہر محمد خلیل اور ان کی 13 سالہ چھوٹی بیٹی اریبہ شامل ہے جب کہ بیٹا اور 2 بیٹیاں بھی زخمی ہوئی ہیں۔ جاں بحق افراد میں چوتھا شخص ذیشان ان کا ہمسایہ تھا۔ یہ پورا خاندان لاہور کا رہائشی تھا جو شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے بورے والا جارہا تھا۔

سی ٹی ڈی نے ابتدائی بیان میں مرنے والے تمام افراد کو کالعدم تنظیم دولت اسلامیہ (داعش) کا دہشت گرد قرار دیا، بعد میں اپنا مؤقف بدل کر چاروں جاں بحق افراد کو اغوا کار قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس نے ساہیوال میں جی ٹی روڈ پر ٹول پلازہ کے نزدیک ایک آلٹو گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا تو کار سوار افراد نے فائرنگ کر دی۔ پولیس کی جوابی فائرنگ سے چاروں افراد ہلاک ہوگئے تاہم کوئی پولیس اہلکار زخمی نہیں ہوا۔

پولیس نے کہا کہ اغوا کاروں کے قبضے سے تین بچے بازیاب کرالیے گئے جو گاڑی کی ڈگی میں موجود تھے۔ تاہم صورت حال اس وقت یکسر تبدیل ہوگئی جب لاشوں اور زخمی بچوں کو ڈی ایچ کیو اسپتال منتقل کیا گیا جہاں زخمیوں کو طبی امداد فراہم کی گئی۔

جب بچوں کا بیان قلمبند کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ جاں بحق افراد میں ان کے والد، والدہ، بڑی بہن اور والد کا دوست شامل ہیں۔ وہ لوگ شادی میں شرکت کیلئے لاہور سے بورے والا جارہے تھے کہ راستے میں پولیس نے ان کی گاڑی پر فائرنگ کی۔

 عینی شاہدین نے بتایا کہ پولیس نے نہ گاڑی روکی اور نہ تلاشی لی بلکہ سیدھی فائرنگ کردی جبکہ گاڑی سے بھی کوئی اسلحہ برآمد نہیں ہوا۔ نیز ڈگی میں بچوں کے ہونے کا دعویٰ بھی غلط ہے ۔ واقعہ کے فوری بعد مقامی تھانہ یوسف والا پولیس نے ہلاک شدگان کی شناخت سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائی سی ٹی ڈی کی جانب سے کی گئی ہے۔

جائے وقوعہ پر موجود عینی شاہدین کا کہنا ہے لاشوں کے پاس جب ایک پستول بھی موجود نہیں تو پولیس نے ان پر کیوں فائرنگ کی۔ دوسرے بیان میں پولیس نے اس معاملے پر اپنا موقف تبدیل کیا ہے۔ پہلے ان افراد کو اغوا کار قرار دیا گیا تھا تاہم بعدازاں سی ٹی ڈی کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق ہلاک افراد دہشت گرد تھے جن کا تعلق کالعدم تنظیم داعش سے تھا جن کا نام ریڈ بک میں بھی شامل ہے۔

سی ٹی ڈی ٹیم نے یہ بھی کہا تھا کہ اس نے جائے وقوعہ سے خود کش جیکٹ، ہینڈ گرنیڈز اور رائفلز سمیت دیگر اسلحہ اپنے قبضے میں لیا۔ ان کے ساتھ ایک موٹرسائیکل پر دیگر 2 دہشت گرد تھے جو فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے