پاکستان پاکستان24

آپریشن درست تھا مگر اہلکاروں کے خلاف مقدمہ

جنوری 22, 2019 2 min

آپریشن درست تھا مگر اہلکاروں کے خلاف مقدمہ

Reading Time: 2 minutes

پنجاب حکومت نے ساہیوال واقعے میں سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ملوث اہلکاروں کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ قائم کرنے کا حکم دیا ہے تاہم ذرائع کا دعوی ہے کہ پوسٹ مارٹم میں سامنے آنے والی گولیاں اور اسلحہ فرانزک کرانے کیلئے تاحال  لیبارٹری کو فراہم نہیں کیا گیا ۔

لاہور میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم جے آئی آئی ٹی کی ابتدائی رپورٹ سامنے آنے کے بعد صوبائی وزیرِ قانون راجہ بشارت نے میڈیا کو بتایا کہ ساہیوال واقعے میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ آپریشن سو فیصد صحیح تھا اور ذیشان گناہگار تھا ۔

انھوں نے بتایا کہ ابتدائی رپورٹ کے مطابق خلیل کے خاندان کے افراد کے قتل کا ذمہ دار سی ٹی ڈی کو ٹھہرایا گیا ہے ۔ وزیرِ قانون کے مطابق سی ٹی ڈی کے صوبائی اور ضلعی عہدیداران کو عہدوں سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاہم وزیر قانون نے آئی ایس آئی کی جانب سے سی ٹی ڈی کو فراہم کردہ معلومات کے سوال پر جواب دینے کے بجائے کہا کہ ہماری اپنی کچھ حدود و قیود ہیں ۔

وزیر قانون نے کہا کہ رپورٹ کی روشنی میں ایڈیشنل آئی جی آپریشنز پنجاب کو عہدے سے ہٹا کر وفاقی حکومت کو رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی پنجاب کے ایڈیشنل آئی اور ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کو بھی عہدوں سے ہٹا کر وفاق بھیج دیا گیا ہے ۔ وزیر قانون کے مطابق ایس ایس پی سی ٹی ڈی اور ڈی ایس پی سی ٹی ڈی ساہیوال کو بھی معطل کر دیا گیا ہے۔

وزیر قانون نے میڈیا کو بتایا کہ اس واقعے میں ملوث پانچ اہلکاروں پر دفعہ 302 کے تحت گرفتار کیا گیا ہے ان پر انسداد دہشت گردی کے مقدمہ قائم کر کے پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

صوبائی وزیر قانون کے مطابق واقعے میں مارے جانے والے گاڑی کے ڈرائیور ذیشان جاوید سے متعلق مزید حقائق معلوم کرنے کے لے جے آئی ٹی نے مزید مہلت مانگی ہے ۔ وزیر قانون سے پوچھا گیا کہ سی ٹی ڈی نے اپنی پریس ریلیز میں آئی ایس آئی کی فراہم کردہ معلومات پر آپریشن کا ذکر کیا تھا، کیا جے آئی ٹی نے آئی ایس آئی کے ان اہلکاروں سے بھی سوال کئے جنہوں نے اس گاڑی کی انفارمیشن دی تھی تو ان کا جواب تھا کہ پنجاب حکومت کی اپنی حدود و قیود ہیں ۔

یاد رہے کہ اس سے قبل جے آئی ٹی کے سربراہ اعجاز شاہ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ ان کو ایک ماہ کا وقت دیا جائے تاکہ تحقیقات مکمل ہو سکیں ۔

دوسری جانب ذرائع کا دعوی ہے کہ پنجاب حکومت اور پولیس حکام عوامی غم و غصے کو کم کرنے کیلئے فوری اقدامات کرنے کے بیانات دے رہے ہیں لیکن عملی طور پر گزشتہ تین دن میں تمام ثبوت ضائع کر دیے گئے ہیں تاکہ عدالت میں ثابت نہ کیا جا سکے ۔

ذرائع نے بتایا کہ تاحال پنجاب پولیس کے افسران ملوث اہلکاروں کا استعمال شدہ اسلحہ پنجاب سائنس فرانزک لیبارٹری کو فراہم نہیں کر پائے، اسی طرح پوسٹ مارٹم میں مقتولین کے جسم سے نکلنے والی گولیاں بھی تجزیے کیلئے لیبارٹری کو نہیں بھیجی گئیں ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے