پاکستان24 متفرق خبریں

خدیجہ صدیقی کو انصاف مل گیا

جنوری 23, 2019 3 min

خدیجہ صدیقی کو انصاف مل گیا

Reading Time: 3 minutes

لاہور میں دو سال قبل سینئر وکیل کے بیٹے کے ہاتھوں چاقو کے 23 وار کھانے والی خدیجہ صدیقی کو سپریم کورٹ نے انصاف دے دیا ہے ۔ عدالت نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے شاہ حسین کی پانچ سال قید کی سزا بحال کر دی ہے ۔ عدالت کے باہر سے ملزم کو گرفتار کر کے تھانے منتقل کر دیا گیا ۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی عدالتی بنچ نے ملزم شاہ حسین کو بری کرنے کے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف خدیجہ صدیقی کی اپیل کی سماعت کی ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق خدیجہ کے وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ ہائیکورٹ نے سیشن جج کا فیصلہ کالعدم کرتے ہوئے شواہد اور گواہوں کے بیانات کا درست جائزہ نہیں لیا ۔ عدالت کو بتایا گیا خدیجہ، اس کی چھوٹی بہن صوفیہ اور ڈرائیور اس حملے کے عینی شاہد تھے جن کے بیانات کو ہائیکورٹ نے تفصیل میں نہ دیکھا اور ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو ختم کیا ۔ وکیل نے بتایا کہ خدیجہ کی حالت اس قابل نہ تھی کہ پہلے دن ملزم کا نام لے کر بیان دیتی ۔

پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق ملزم کے وکیل خالد رانجھا نے عدالت کو بتایا کہ ہائیکورٹ نے شک کا فائدہ دے کر درست فیصلہ دیا ۔ خدیجہ نے فوری طور پر شاہ حسین کو نامزد نہ کیا حالانکہ دونوں ایک سال دوست رہے تھے، شاہ حسین عورت کی نفرت کا شکار ہوئے اس لئے ان کو پانچ دن بعد ملزم نامزد کیا گیا، دوسری جانب یہ شناخت کی غلطی کا معاملہ بھی ہے، خدیجہ نے شاہ حسین کو کسی اور سے بدل دیا ہو ۔ وکیل نے کہا کہ خدیجہ کے زخم اتنے گہرے اور شدید نہ تھے کہ حملے کے بعد بول نہ سکتیں بلکہ اس نے ڈاکٹر کو بتایا کہ حملہ آور کوئی لڑکا تھا ۔

جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ ڈاکٹر بہت ناتجربہ کار تھی، اس نے پہلے لکھا کہ اجنبی نے حملہ کیا، پھر لکھتی ہے کہ خدیجہ نے بتایا کوئی لڑکا تھا، آخر میں لکھتی ہے کہ سرجنز نے خدیجہ کو آپریشن تھیٹر میں لے جاتے ہوئے مجھے باہر نکال دیا کہ ہم نے اس کی جان بچانی ہے تم سوالات کر رہی ہو ۔

پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق سماعت کے اختتام پر ملزم شاہ حسین کے باپ سینئر وکیل نے عدالتی کارروائی میں مداخلت کی اور کچھ حقائق بیان کئے جس پر چیف جسٹس نے ان کو بیٹھنے کیلئے کہا ۔ ملزم نے خود پیش ہو کر اپنا مقدمہ لڑا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے آپ کے وکیل کو سن لیا ہے، پھر کہا کہ دو منٹ کا وقت دیتے ہیں ۔ تاہم چیف جسٹس سمیت تینوں ججز سینئر وکیل کے بیٹے ملزم شاہ حیسن کو پندرہ منٹ سنتے رہے ۔

جس کے بعد خدیجہ صدیقی نے کہا کہ مجھے بھی سن لیا جائے ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق عدالت نے دو منٹ کا وقت دیا اور چیف جسٹس نے کہا کہ صرف متعلقہ بات کریں ۔ خدیجہ کی والدہ نے استدعا کی کہ ملزم کے باپ کو سنا ہے تو مجھے بھی سن لیا جائے ۔ چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ آپ تشریف رکھیں ۔

اس کے بعد بنچ اٹھ کر چلا کر گیا ۔ دس منٹ بعد آ کر عدالت نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے ہائیکورٹ کا سزا ختم کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے سیشن جج کی جانب سے شاہ حسین کو سنائی گئی پانچ سال کی سزا بحال کر دی ۔

فیصلہ سنائے جانے کے بعد شاہ حیسن اپنے والد کے ہمراہ باہر آئے اور کمرہ عدالت کے باہر گفتگو کی ۔ اس دوران صحافی مطیع اللہ جان نے ایسا سوال کیا جو تین گھنٹے کی سماعت میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ سمیت تین ججز، استغاثہ، سرکاری وکیل اور صفائی کے وکیل نے اشاروں کنایوں میں بھی نہ پوچھا تھا ۔

سوال تھا کہ جس وقت خدیجہ صدیقی پر قاتلانہ حملہ کیا گیا اس وقت آپ کہاں تھے؟ کیا جائے وقوعہ سے اپنی دوری یا وہاں موجود نہ ہونے کو آپ نے موبائل فون کال ریکارڈ یا گواہوں کے ذریعے ثابت کرنے کی کوشش کی؟

شاہ حیسن نے جواب دیا کہ یہ پولیس کا کام تھا ۔

واضح رہے کہ عدالتی کارروائی کے دوران استغاثہ، سرکاری وکیل اور وکیل صفائی کے علاوہ ججوں نے بھی پولیس کی ناقص تفتیش پر سوال اٹھائے اور کہا کہ ہیملٹ سے ملنے والے بالوں کا پنجاب سائنس فرانزک لیبارٹری سے تجزیہ کیوں نہ کرایا گیا ۔

اے وحید مراد

شاہ حسین فیصلہ سننے کے بعد

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے