پاکستان

لوگ کہیں گے بیٹی کا ریپ ہوگیا اور باپ کو جیل، چیف جسٹس

جنوری 24, 2019 3 min

لوگ کہیں گے بیٹی کا ریپ ہوگیا اور باپ کو جیل، چیف جسٹس

Reading Time: 3 minutes

سپریم کورٹ نے سرگودھا میں لڑکی سے مبینہ زیادتی کے الزام میں آٹھ سال سے قید ندیم مسعود کو بری کر دیا ہے ۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ یہ زنا باالرضا کا کیس ہے لڑکی زیادتی کے وقت بالغ تھی ۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سرگودھا کی رہائشی لڑکی سے زیادتی کے الزام میں قید ندیم مسعود کی اپیل کی سماعت کی۔ متاثرہ لڑکی نے موقف اپنایا کہ ملزم ندیم مسعود اس کے ساتھ زیادتی کرتا رہا جس سے وہ حاملہ ہوگئی، اب اس کی بیٹی آٹھ سال کی ہو چکی ہے ۔ لڑکی کے والد نے کہا کہ ملزم بااثرہے، انصاف فراہم کیا جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آج کل انصاف وہی ہے جو مرضی کا ہو، فیصلہ خلاف آجائے تو انصاف نہیں ہوتا، انہوں نے کہا کہ جب لوگوں نے خاتون کو دیکھ لیا تب اس نے زیادتی کا الزام لگا دیا، میڈیکل رپورٹ میں زیادتی کے بارے میں کچھ نہیں لکھا، جس وقت زیادتی کا الزام لگایا گیا اور میڈیکل ہوا تو لڑکی چھ ہفتے کی حاملہ نکلی ۔

عدالت نے قرار دیا کہ استغاثہ اپنا مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام رہا، لڑکی زیادتی کے وقت بالغ تھی ۔ لڑکی نے سات مہینے تک کسی رپورٹ کا اندراج نہیں کرایا، یہ زنا باالرضا کا کیس ہے، عدالت نے آٹھ سال بعد ملزم ندیم مسعود کو مقدمے سے بری کر دیا ۔

دریں اثنا سپریم کورٹ نے شیخو پورہ کی رہائشی ش کے ساتھ زنا بالجبر کے مقدمے کی سماعت کے دوران متاثرہ لڑکی کے والد کی سخت سرزنش کی ہے ۔ چیف جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کے سامنے حلف اٹھا کر جھوٹا بیان دیا، اب اگر ہم آپ کو سزا سنا دیں تو پھر کہیں گے ایک تو بیٹی کا ریپ ہوا، باپ کو بھی جیل بھیج دیا ۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی ۔

چیف جسٹس نے ٹرائل کورٹ اور ہائیکورٹ کے فیصلے میں غلطیوں پر برہمی کا اظہار کیا ۔ انہوں نے کہا کہ عدالت اور منصف کا کام یہ نہیں کہ وہ اپنا نام بچاتے ہوئے دوسروں کو سزا دے دے، جج کا کام انصاف کرنا ہوتا ہے جو انصاف نہیں کر سکتے وہ گھر چلے جائیں ۔
پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پنجاب میں ایسا ہوتا ہے کہ اگر جرم ثابت ہو تو سزا موت اور ثابت نہ ہو تو عمر قید کی سزا دی جاتی ہے، اس طرح تو انصاف نہیں ہوتا ۔


چیف جسٹس نے کہا کہ بہت ہوگیا 70 سالوں میں اب نظام کو ٹھیک کرنا ہے، ہائیکورٹ بہت بڑی عدالت ہوتی ہے، اس کیس میں ہائیکورٹ نے شواہد کو نظر انداز کیا، جب تک ان جھوٹے گواہوں سے نہیں نمٹیں گے انصاف نہیں ہو سکتا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیس کے مرکزی گواہ اور مدعی بشیر احمد نے جھوٹی گواہی دی جس پر ملزم کو سزائے موت ہو سکتی تھی ۔


چیف جسٹس نے متاثرہ لڑکی کے والد سے کہا کہ بشیر صاحب کیوں نہ جھوٹی گواہی پر آپ کو عمر قید کی سزا سنا دیں، اب ہم آپ کے خلاف کارروائی کریں تو لوگ کہیں گے کہ ایک تو بیٹی کا ریپ ہو گیا اور باپ کو اندر کر دیا ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کا کام تفتیش کرنا نہیں، تفتیشی افسر کو پتا ہوتا ہے کون سچا کون جھوٹا گواہ ہے، بشیر احمد نے عدالت کے سامنے بھی دو بیان دیئے، یہ آدمی ذہنی طور پر معذور لگتا ہے،


عدالت نے لکھا کہ سیشن کورٹ نے ملزم کو عمر قید کی سزا سنائی جبکہ دوسرا ملزم شانی عدالت میں پیش نہیں ہوا، ہائیکورٹ نے سیشن کورٹ کا فیصلہ بر قرار رکھا ۔ عدالت نے قرار دیا کہ لڑکی کے جسم پر تشدد کے کوئی نشانات نہیں، عدالت نے بشیر احمد کی سزا کالعدم قرار دے کر رہا کرنے حکم دے دیا ۔ عدالت نے لڑکی کے والد سے ہمیشہ سچ بولنے کا وعدہ بھی لیا ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے