کالم

نواز شریف کا بھوت

فروری 6, 2019 4 min

نواز شریف کا بھوت

Reading Time: 4 minutes

اظہر سید
سابق وزیراعظم کی طبی بنیادوں پر ضمانت کے امکانات کو لے کر ایک طرف این آر او یا ڈیل کا بھر پور شور شرابہ بعض حلقوں کے سائبر سیلوں سے کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف عالمی ریٹنگ ایجنسی نے پاکستان کی ریٹنگ بی نیگیٹو کر دی ہے ۔سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی ضمانت کے امکانات اور علاج کیلئے بیرون ملک ممکنہ روانگی کی افواہوں اور ملکی معیشت کی تیزی سے ابتر ہوتی صورتحال میں ہمیں کوئی ربط نظر نہیں آتا ۔جو حکمت ساز تبدیلی لائے ہیں جیل میں قید نواز شریف سے وہ کیا چاہتے ہیں اور میاں نواز شریف انہیں کیا دے سکتے ہیں ان دو باتوں کا تجزیہ کر لیں تو بھی کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔
میاں نواز شریف کو جبری این آر او دیا جائے ،انہیں علاج کیلئے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی جائے تو کیا ہو گا ؟ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو جائے گا ۔میاں نواز شریف کے ساتھ ڈیل کی صورت میں عالمی ریٹنگ ایجنسیاں پاکستان کی معاشی ریٹنگ بہتر کر دیں گی ۔ادائیگیوں کے توازن کی لٹکتی تلوار سے نجات مل جائے گی ۔ منظور پشتین اپنے مطالبات سے دست بردار ہو جائے گا اور کیا حکمت سازوں کی تبدیلی کو تسلیم کر لیا جائے گا ۔ان سوالات کے جوابات مل جائیں تو ڈیل اور این آر کی باتوں پر یقین بھی کیا جا سکتا ہے دوسری صورت میں اسٹیبلشمنٹ کیلئے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف ایک بھوت بن چکا ہے اور بھوت بنا رہے گا ۔
دوست ممالک سے جو چند ارب ڈالر ملے ہیں وہ صرف چھ آٹھ ماہ تک سانس لینے کی مہلت ہے اصل مسلہ آئی ایم ایف پروگرام اور اس سے منسلک شرائط ہیں ۔عالمی ریٹنگ ایجنسیاں بھی عالمی مالیاتی اداروں کی طرح طاقتور ممالک کے اشاروں پر ممالک کی معاشی ریٹنگ گراتی ہیں اور اچھی کرتی ہیں ۔پاکستان کی معاشی ریٹنگ کم کی گئی ہے تو اس کا دوسرا مطلب یہ ہے آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط مزید سخت ہونگی ۔
نواز شریف کے ساتھ ممکنہ این آر او سے اگر کسی کو خوفزدہ ہونا ہے تو وہ خود موجودہ حکومت ہے جس کی ناقص معاشی پالسیوں نے تبدیلی کے غبارے سے ہی ہوا نہیں نکالی خود ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی انتہائی کمزور وکٹ پر کھڑا کر دیا ہے ۔ شہباز شریف کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے وہ صرف اپنے لئے نیب مقدمات سے ریلیف لے سکتے ہیں اور وہ انہوں نے لے لیا ہے اسٹیبلشمنٹ کو دینے کیلئے شہباز شریف کے پاس کچھ نہیں ۔
میاں نواز شریف کو جیل میں رکھ کر بھی معیشت بہتر نہیں ہو سکتی انہیں رہا کرنے بیرون ملک جانے کی اجازت دینے سے بھی مسایل حل نہیں ہو سکتے ۔فرض کریں میاں نواز شریف علاج کیلئے لندن چلے جاتے ہیں تو اس سے اسٹیبلشمنٹ کو کیا فائدہ ہو گا ؟ اسٹیبلشمنٹ کے پاس کھونے کیلئے بہت کچھ ہے میاں نواز شریف کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہیں ہے وہ سب کچھ گنوا بیٹھے ہیں ۔ انکی وزارت عظمی چھینی گئی ۔انکی اہلیہ قید کی دوران انتقال کر گئیں ۔انہیں جیل بھیج دیا گیا ،انکی توہین کی گئی ۔ انہیں مودی کا یار کہا گیا ۔ آج جب ان کے ساتھ یہ سلوک کرنے والے معاشی بحران اور بوجھ بن جانے والی تبدیلی کے ہاتھوں نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کا شکار ہیں تو این آر او کی ضرورت نواز شریف کو ہے یا تبدیلی لانے والوں کو اس بات کا ضرور ہی تجزیہ ہونا چاہے ۔
جو کھیر بنائی گئی تھی وہ دلیہ بن چکی ہے ۔معاشی بقراطوں نے شرح سود بڑھا کر بجٹ خسارہ بڑھا دیا ہے ۔روپیہ کی قیمت میں 40 فیصد کمی صرف ایک سال میں کی گئی ہے اس سے افراط زر یعنی مہنگائی ہی نہیں بڑھی تمام درآمدات کی پیداواری لاگت میں بھی اضافہ ہو گیا ہے کیونکہ اب برآمدات کیلئے درکار خام مال 40 فیصد اضافی قیمت پر درآمد ہو گا ۔
ٹاسک فورس نے جو گرے لسٹ میں ڈالا ہے ،سٹینڈرڈ اینڈ پورز نے جو ریٹنگ کم کی ہے اس سے غیر ملکی سرمایہ کار آئیں گے نہ عالمی منی مارکیٹ سے پیسے ملیں گے اگر ملے بھی تو بہت زیادہ قیمت پر ۔آپ کے بانڈز بھی عالمی مارکیٹ میں فروخت نہیں ہونگے اگر فروخت ہوئے بھی تو بہت زیادہ سود دینا ہو گا ۔بجٹ خسارہ بڑھتا ہی جا رہا ہے اور نجات کی کنجی سیاسی قوتوں خاص طور پر میاں نواز شریف کے پاس ہے ۔
اگر لاہور میں چینی سفیر کی گفتگو کے بعد معاملات کو سنبھالنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو پھر یہ کام تیزی کے ساتھ کرنا ہو گا اور سابق وزیراعظم کی شرائط کو تسلیم کرنا ہو گا ۔مسایل کا حل صرف آئین اور قانون کے تحت تمام اداروں کا اپنے دائرہ اختیار میں رہنے میں ہے ۔کسی سیاسی قوت کو جبری سیاست سے بے دخل کرنے کی کوشش بعض دفعہ اسی طرح گلے پڑھ جاتی ہے جس طرح نواز شریف کا بھوت گلے پڑھ گیا ہے ۔
لوگ تجزیہ کرتے ہیں تحریک عدم اعتماد سے حکومت فارغ کر کے شہباز شریف کو وزارت عظمی دے دیں اسٹیبلشمنٹ کو پنجاب میں ن لیگ کی حمایت بھی مل جائے گی اور چینیوں سے بیل آوٹ پیکیج بھی مل جائے گا لیکن بات پھر وہیں آجاتی ہے نواز شریف کوئی یقین دہانی کرائیں گے اور اگر کوئی یقین دہانی کرائی تو اس کی ضمانت کون دے گا ؟ پھر تحریک انصاف کو جو چاروں صوبوں اور مرکز میں اتنی سیٹیں دلا دی ہیں وہ شہباز شریف کو سکون سے حکومت چلانے دیں گے ؟ مسائل کا حل حکومت کی ان ہاوس تبدیلی سے نہیں بلکہ نئے انتخابات سے نکلے گا ۔نئے الیکشن کے بعد بننے والی حکومت کو بھر پور ادارہ جاتی حمایت حاصل ہو گی تو معیشت بھی مستحکم ہو جائے گی اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی بحال ہو جائے گا ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے