کالم

خوشی سے مر نہ جاتے

فروری 10, 2019 4 min

خوشی سے مر نہ جاتے

Reading Time: 4 minutes

اظہر سید
پلانٹڈ وزیراعظم نے پھر اعلان کیا ہے زرداری اور نواز شریف نے ملک لوٹا انہیں این آر او دینا ملک سے غداری ہو گا۔ یہ بھی کہا قومی خزانہ میں چوری کی وجہ سے ملکی قرضہ 30 ہزار ارب پر پہنچ گیا ۔
خود کو پاک دامن ظاہر کر کے دوسروں کو چور کہنے والوں کے متعلق سپریم کورٹ نے حال ہی میں ایک فیصلہ دیا ہے ۔اس فیصلہ میں سیاسی جماعتوں کے غیرملکی فنڈنگ کے متعلق ہدایات دی گئی ہیں کہ سیاسی جماعت قانون کے مطابق فارن فنڈنگ کے حسابات دے ۔ تحریک انصاف نیک لوگوں کی جماعت ہے اور وزیراعظم مسیحا ہے ۔ہمارا وزیراعظم جو ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت کو چور کہتا ہے خود اتنا نیک ہے دامن نچوڑ دے تو فرشتے وضو کیلئے ان پہنچیں گے ۔
اپنی سگی بہن کی امریکی پراپرٹی کی منی ٹریل لینے کی بجائے سابق حکومت کی ایمنسٹی اسکیم میں میں تمام پراپرٹی کو پاک صاف کر دیا ۔اتنا عظیم راہنما قوم کو ملا ہے لندن پولیس کے تفتیش کار تحقیق کر رہے ہیں اور کیس چل رہا ہے شوکت خانم کے نام پر کس طرح چیرٹی کے حاصل کردہ فنڈز دوبئی میں منتقل کئے گئے ۔
ایسے چال باز قوم کو صدیوں میں نصیب ہوتے ہیں اور پاکستان کی قسمت ہمیں یہ ہیرو مل گیا ۔دوبئی میں علیمہ خان نے جائداد فروخت کر دی لیکن اس کے پیسے کہاں سے کمائے تھے اور کہاں چلے گئے کبھی جواب دینے کی زحمت نہیں کی ۔دوسروں پر چھلانگیں لگا کر چوری اور فراڈ کے الزامات اپنے گھر کی بات آئے بھولے سے بھی ذکر نہیں ۔
لوگوں کی یاداشت تازہ کرنے کیلئے صرف سوشل میڈیا بچا ہے ۔رضی دادا کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے جس طرح میاں نواز شریف کے بیٹے کی جے آئی ٹی میں تصویر اہتمام کے ساتھ لیک کی گئی اسطرح رضوان رضی کی تصویر فراہم کی گئی ہے تو سوشل میڈیا کو بھی ایک طرح سے دھمکی ملی ہے ۔یہ بھی غنیمت ہے رضی دادا لاپتہ نہیں ہوئے ۔نجی چینلز اور پرنٹ میڈیا لوگوں کی یاداشت تازہ کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھا ہے ۔کون لوگوں کو بتانے کی ہمت کرے گا نیک وزیراعظم کی جماعت کتنے سالوں سے اپنی جماعت کو ملنے والے غیرملکی فنڈنگ کے حسابات دینے سے بھاگ رہی ہے ۔ اگر نواز شریف اور آصف علی زرداری کو این آر او دینا غداری ہے تو غیر ملکی فنڈنگ کا حساب نہ دینا اس سے بھی بڑی غداری ہے اور سپریم کورٹ کے حکم پر عمل نہ کرنا تو آئین سے بھی غداری ہے ۔پہلے اپنی جماعت کو ملنے والے غیرملکی فنڈز کا حساب دیں پھر غداری کا بھاشن سنیں گے ۔
وزیراعظم کی جو اوقات اور اہمیت ہے وہ خود تحریک انصاف کے باخبر لوگ بہتر جانتے ہیں ۔
نعرے ملک کی مقبول لیڈر شپ کے خلاف اور بزدلی کا یہ عالم دو ٹکے کے ایک اینکر کے گھر پہنچ گئے ۔پہلے اپنے بنی گالا کے گھر کو ریگولرائز کرنے کے معاملہ میں خود کو صاف کریں ۔پہلے اپنی سگی بہنوں کی اربوں روپیہ کی پراپرٹی کی منی ٹریل دیں یہ لوٹ مار سے بنی ہیں یا حقیقت میں ایسی قسمت ہے جو کاروبار کرو مٹی سونا بن جاتی ہے ۔
ملک کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے جنہوں نے مسلط کیا ہے چھ ماہ اور گزر گئے روپیہ کی قیمت اتنی ہو جائے گی دفاعی بجٹ ہدف بن جائے گا ۔رئیل اسٹیٹ کا کاروبار برباد ہو گیا ، ہر روز اربوں روپیہ کا کاروبار ہوتا تھا اور ٹیکس صرف حکومتی خزانہ میں نہیں جاتے تھے مارکیٹ میں بھی یہ اربوں روپیہ مختلیف شکلوں میں آتے تھے ہر صنعت کا پہیہ چلتا تھا ۔
آٹو موبائل کی صنعت میں سناٹے چھا گئے ہیں جو کار ساز اپنی کاروں کے اون پر اتراتے تھے اب ترغیبات دے رہے ہیں لیکن اربوں روپیہ کے یونٹ خریداروں کے منتظر ہیں ۔
حصص بازار میں ویرانیاں چھا گئی ہیں ۔چھوٹے سرمایہ کار امید بھری نظروں سے بروکرز کے دفتروں میں بیٹھے ہوتے ہیں کب حصص کی قیمت میں اضافہ ہو فروخت کریں اور بھاگ جائیں لیکن حصص ہیں کہ ہاتھوں میں چمٹ گئے ہیں ہاتھ جھٹکتے ہیں قیمت اور کم ہو جاتی ہے جائیں تو کہاں جائیں ۔
30 ہزار ارب روپیہ کے قرضے کا راگ سنتے سنتے کان پک گئے ۔مکاری اور بے ایمانی کی انتہا ہے ۔روپیہ کی قیمت ایک سال میں 40 فیصد بڑھ گئی اور بیٹھے بیٹھے ملکی اور غیر ملکی قرضوں میں 40 فیصد کا اضافہ ہو گیا صرف اس بات پر آزاد ماہرین معیشت کا کوئی بورڈ بٹھایا جائے تو ملک کے اصل غداروں کا تعین کرنے میں آسانی ہو گی ۔
بینکوں اور مالیاتی اداروں کے کھاتوں پر شرح سود بڑھا دی ۔ان لوگوں سے کوئی پوچھنے والا نہیں اس ملک کا کوئی والی وارث نہیں ظالمانہ طریقے سے معیشت برباد کی جا رہی ہے ۔17 فیصد شرح سود پر کون احمق بینکوں سے قرضے لے گا اور کاروبار کرے گا ۔قومی بچت والے جب کھاتوں پر 15 فیصد سود دیں گے کون پاگل کاروبار کرے گا وہ تو بینکوں میں پیسے رکھے گا اور سود کھائے گا ۔
دوسروں کو چور اور ڈاکو کہہ کر طاقتوروں کی مدد سے حکومت سنبھال لی اب اس کو اندھیر نگری اور چوپٹ راج بنانے پر تلے ہیں ۔
چوروں اور ڈاکوؤں والا ڈرامہ بند کریں سنجیدگی سے ملکی معیشت پر توجہ دیں ۔ملک میں قومی اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی کی ضرورت ہے ۔جن قوتوں کو بتایا جا رہا ہے این آر او ملک سے غداری ہو گا انہوں نے ایک اشارہ کر دیا مسلم لیگ ق ،ایم کیو ایم اور ایک آدھ اور حلیف الگ ہو گیا تو تحریک عدم گھر کا راستہ ہی نہیں دکھائے گی اپنی مقبولیت اور اوقات کا بھی پتہ چل جائے گا ۔
جو لوگ فیصلے کر رہے ہیں اور اپنی غلطیوں کو درست کرنے کی کوشش میں ہیں انہیں دھمکیاں دینے کی بجائے ان کے ہاتھ مضبوط کرنے پر توجہ دی جائے تو بہتر ہو گا ۔تحریک انصاف کو حکومت ملی ہے تو صرف شہباز شریف کے بھائی سے بے وفائی نہ کرنے کی وجہ سے ملی ہے ۔
اسٹیبلشمنٹ ہدف بن رہی ہے حب الوطنی اگر کہیں موجود ہے تو اسٹیبلشمنٹ پر آنے والا بوجھ کم کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں ۔یہ ملک سب کا ہے ملک سلامت رہے تو سیاست ہوتی رہے گی اس وقت تمام سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر معاشی این آر او کی ضرورت ہے اور بس ۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے