کالم

قومی اسمبلی میں احتجاج، ہنگامہ آرائی

فروری 21, 2019 3 min

قومی اسمبلی میں احتجاج، ہنگامہ آرائی

Reading Time: 3 minutes

قومی اسمبلی کا اجلاس نیب کے ’کالے قانون- کی گونج لیے کالی پٹیاں باندھے، احتاج کرتے ارکان کی ہنگامہ آرائی کی نذر ہو کر ملتوی کر دیا گیا ۔

قومی اسمبلی سے عابد خورشید

آدھ گھنٹے تاخیر سے شروع ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس، قومی احتساب بیورو نیب کی جانب سے سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی کی گرفتاری پر احتجاج کی نذر ہو گیا۔
پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ خوب برسے، کہا، آغا سراج درانی اس سندھ اسمبلی کا سپیکر ہے جس نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا، کبھی لیاقت علی خان، کبھی بھٹو کبھی، بے نظیر بھٹو کو شہید کیا جاتا ہے ۔
خورشید نے اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج سندھ اسمبلی کے اسپیکر کو گھسیٹ کر لے جایا جا رہا ۔ جب سپیکر خود کمزور ہوگا تو سعد رفیق کو کیسے بلائے گا؟ اسپیکر کو ڈکٹیشن دی جائے گی کہ خبردار جو سعد رفیق کو اجلاس میں بلایا ۔

خورشید نے کہا کہ ہمیں بے نامی اور چور کہا جاتا ہے، ادھر والے ادھر والوں کو اور ادھر والے ادھر والوں کو چور کہیں گے تو پھر عوام کیا سمجھیں گے؟
ہم جانتے ہوئے گریز کرتے ہیں کہ کسی پر بات نہیں کرتے،
یہ نیا پاکستان ہے جس میں سپیکر کو گھسیٹ کرلے جایا جاتا ہے
ڈریں کل سپیکر صاحب آپ کے ساتھ بھی ایسا ہو ۔

انہوں نے کہا کہ مارشلاوں نے ملک کو بے بس کرکے رکھ دیا، مارشل لا لگتے رہنے کے باوجود جمہوری لوگوں نے جدوجہد کی ۔ مولوی تمیزالدین سے لے کر اسد قیصر تک سب اسپیکرز قابل احترام ہیں ۔ یہ ایوان سب سے خود مختار ہے، جب ایک ایوان کے سربراہ کو گھسیٹ کر لے جائیں گے تو ان ایوانوں کی کیا خود مختاری ہوگی ۔ آغا سراج نے ہوسکتا ہے کچھ کیا ہو مگر یہ کون سا رویہ ہے؟
سندھ وفاق کی اکائی ہے، آغا سراج درانی سندھ اسمبلی کا سپیکر ہے ۔ سرکاری ادارے نہیں، پارلیمنٹ سپریم ہے۔


اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے وضاحت دیتے ہوئے کہا واضح کردوں نہ مجھ پر کوئی نیب کیس ہے نہ کوئی دباو ہے، نہ کسی سے ڈکٹیشن لی ہے نہ لوں گا، سخت فیصلے کروں گا اور ایوان کا تقدس پامال نہیں ہونے دوں گا ۔
خورشید شاہ کے جواب میں حکومتی بینچ سے وزیر شفقت محمود نے بھی پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو آڑے ہاتھ لیا۔ کہا، احتساب کا عمل ہونا چاہیئے،۔ اور کسی کو اس پر اعتراض نہیں ۔جس ادارے پر اعتراض کیا جارہا ہے اس کا تعلق اس پارلیمنٹ سے نہیں ہے ۔ یہ ادارہ مشرف دور میں بنایا گیا، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی حکومت آئی لیکن تبدیل نہیں کیا گیا ۔18 ویں ترمیم ایک بڑی دستاویز مرتب ہوئی اور تبدیلی کی گئی ۔ گزشتہ دس سالوں میں نیب قانون میں ایک کامہ تک کیوں تبدیل نہیں کیا گیا؟ وزیراعظم نواز شریف اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی مشاورت سے موجودہ چیئرمین مقرر کئے گئے۔ نیب حکومت کے ماتحت نہیں ہے، لیکن خورشید شاہ ہمیں خوامخواہ تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔ میں نیب کے دفاع کے لئے ایوان میں نہیں آیا نہ یہ میرا مینڈیٹ ہے ۔ نیب کا قانون تبدیل نہیں کیا گیا تو اس میں رضا مندی انہی کی شامل ہوگی ۔ ہمارا بھی سینئر وزیر پنجاب میں گرفتار ہوا، ہمیں ابھی ان گرفتاریوں پر دکھ ہے ۔

شفقت محمود نے کہا کہ اب جو قوانین موجود ہیں ان کے تحت کارروائی ہورہی ہے تو پارلیمان کو کیوں گھسیٹا جارہا ہے ۔کسی کی بد عنوانی میں جمہوریت یا پارلیمنٹ تو ڈھال نہیں بنائی جاسکتی ۔ یا پھر کہہ دیں احتساب ہونا ہی نہیں چاہیئے نیب کالا قانون کالا قانون کے اپوزیشن کے نعرے، شفقت محمود برہم کہاآپ کالا قانون کا نعرہ لگا رہے ہیں اس وقت کیوں تبدیل نہیں کیا ؟18 ویں ترمیم کرسکتے تھے تو احتساب کا قانون کیوں تبدیل نہیں کیا گیا ۔ہمیں احتساب کے عمل کی تائید اور معاونت کرنا چاہیے۔ اگر کس کو تحفظات ہیں تو عدالت جاکر ریلیف لیں اور دفاع کریں ۔

پارلیمنٹ میں آکر حکومت کو برا بھلا کہہ رہے ہیں جس سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں

اپوزیشن پارلیمنٹ کو کیوں استعمال ہورہی ہے ۔ شاہد خاقان اور راجا پرویز اشرف خود وزیراعظم تھے، اس وقت کیوں تبدیل نہیں کیا ۔ یہ ماتم کرنا ہے تو اپنے اور اپنی قیادت کے خلاف کریں کیونکہ یہ سب کیا دھرا انہی کا ہے۔آج ایوان میں پلوامہ سانحہ، پاکستان کے دفاع پر بات کرنا چاہیئے تھے۔ یہ ظلم کے ضابطے بھی خود آپ کے بنائے گئے ہیں۔

وفاقی وزیر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے تقریر کا آغاز کیا تو اپوزیشن ارکان ڈائس کے سامنے آگئے ۔
ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کی تقریر کی کوشش۔ لیکن اپوزیشن نے وزیراعظم شاہد خاقان ،خورشید شاہ کی قیادت میں سپیکر کے ڈائس کا گھیراو کر دیا جس پر سپیکر نے اجلاس جمعے تک ملتوی کر دیا۔

ذرائع کے مطابق اپوزیشن جماعتوں کا قومی اسمبلی اجلاس میں شدید احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے