پاکستان

اسپیکر کی گرفتاری کے سیاسی اثرات

فروری 22, 2019 3 min

اسپیکر کی گرفتاری کے سیاسی اثرات

Reading Time: 3 minutes

اسپیکر سندھ اسمبلی کی گرفتاری اور سیاسی اثرات !

کراچی تجزیاتی رپورٹ: عبدالجبارناصر

اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی 20 فروری کو گرفتاری کے بعد سندھ کی سیاست میں ہلچل پیدا ہوگئی ہے اور پیپلزپارٹی جارحانہ موڈ میں نظر آرہی ہے، جبکہ سندھ اسمبلی کے 27 فروری تک ملتوی اجلاس کو قائم مقام اسپیکر نے قبل از وقت 22فروری کو(آج ) دوپہر دو بجے طلب کرتے ہوئے آغا سراج درانی کے اجلاس میں شرکت کے لئے پروڈکشن آڈر بھی جاری کرلیا ہے ، یہ اجلاس بھی ہنگامہ خیز ہونے کا امکان ہے اور قائد حزب اختلاف کے لئے اصل امتحان اپوزیشن کو متحد رکھنا ہے ۔اسپیکر سندھ اسمبلی آغاسراج درانی کی گرفتاری کے بعد نہ صرف پیپلزپارٹی مشکل میں نظر آرہی ہے بلکہ اپوزیشن کو بھی سندھ اسمبلی میں قانون سازی اور اپوزیشن کو متحد رکھنے پر بھی مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے ۔پیپلزپارٹی پارلیمنٹریرینز کے سربراہ آصف علی زرداری ، پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے سخت موقف سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ پیپلزپارٹی اب شاید مفاہمت کی بجائے جارحانہ موقف اختیار کرے۔ پیپلزپارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اب تک کے نرم رویہ سے ہمیں بہت نقصان ہوا ہے اور اب ہمارے پاس سخت رویہ کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی کے حلقوں کا کہنا ہے کہ آغا سراج درانی کی سندھ کی بجائے اسلام آباد سے گرفتاری اور آغا سراج درانی کے گھر پر چھاپے کے دوران نیب اہلکاروں کا مبینہ تضحیک آمیز رویہ ہمارے لئے معاون ثابت ہورہا ہے۔ پیپلزپارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پہلے مرحلے میں جمعہ کو(آج) اسمبلی میں سخت ردعمل ظاہر کیاجائے گا اور اس دوران مذمتی قرارداد منظور کی جائے گی ۔ آئین کے آرٹیکل 53(3)، آرٹیکل 127اور سندھ اسمبلی کے قوائد وضوابد کار کے رول 14 کے مطابق ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی ڈاکٹر ریحانہ لغاری نے قائم مقام اسپیکر بننے کے بعد سندھ اسمبلی کے ضوابط کار رول نمبر 82(2)کے مطابق اسپیکر آغاسراج درانی کے بطور ممبر اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لئے پروڈکشن آرڈر جاری کردیا ہے ۔نیب نے اگر اجلاس میں ملزم کو لانے سے گریز کیا تو اس سے مزید بحرانی کیفیت پیدا ہوگی اس لئے امکان یہی ہے کہ نیب آغا سراج درانی کو اجلاس میں شرکت کی اجازت دے گا۔ قوائد کے مطابق اسمبلی حدود میں آنے کے بعد اسپیکر آغا سراج درانی بطور اسپیکر فرائض سرانجام دیں گے ، تاہم اسمبلی کے ضوابط کار کے مطابق اجلاس کی صدارت کا اختیار ڈپٹی اسپیکر کو بھی تحریری طور پر تفویض کرسکتے ہیں۔ سندھ اسمبلی کے ضوابط کار کے رول نمبر 82(1)کے مطابق کسی بھی رکن کی گرفتاری سے قبل اسپیکر کو آگاہ کرنا ضروری ہے مگر اس بار اس قاعدے کوتوڑا گیاہے، اس لئے اسمبلی اجلاس میں اس اہم نکتے پر بھی سخت ردعمل سامنے آنے کا امکان ہے ۔ دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں بالخصوص تحریک انصاف اور گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس بھی جوابی ردعمل کے لئے تیار ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قائد حزب اختلاف فردوس شمیم نقوی کے لئے اصل امتحان مذمتی قرارداد کی منظور کے وقت اپوزیشن کو متحد رکھنا ہے ، کیونکہ خود اپوزیشن کی بعض جماعتوں کو آغا سراج درانی کی سندھ کی بجائے اسلام آباد سے گرفتاری اور اہلخانہ کے ساتھ مبینہ بد سلوکی پر شدید اعتراض ہے ۔ آغا سراج درانی گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے سربراہ پیر صاحب پگارا کے بہنوئی ہیں، نیب کی جانب سے گھر چھاپے کے دوران اہلخانہ کے ساتھ مبینہ بدسلوکی کے معاملے پر تحریک انصاف کے لئے گرینڈڈیموکریٹک الائنس کو مذمت کے عمل سے روکنا بہت مشکل ہوگا ۔ ایم کیوایم پاکستان کے ذرائع کا بھی کہنا ہے کہ سندھ کی بجائے اسلام آباد سے گرفتاری مذمت نہ کرنا ہمارے لئے بھی مشکل ہوگا۔ اسمبلی سیکریٹریٹ کے ذرائع کے مطابق اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی گرفتاری کے بعد رواں سیشن کے دوران 35کے قریب مجالس قائمہ کی تشکیل کا مرحلہ اب طویل تاخیر کا شکار ہوسکتا ہے ، کیونکہ اس حوالے سے آغا سراج درانی نگرانی میں کافی حدتک کام ہوچکا تھا۔ پیپلزپارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی پارلیمانی ایوانوں کے ساتھ ساتھ عوامی سطحہ پر احتجاج بھی کرے گی اور اگر پیپلزپارٹی اسپیکر آغا سراج درانی کی گرفتاری کو عوامی سطحہ پر کیش کرانے میں کامیاب رہی تو سندھ میں اپوزیشن کے لئے مشکلار پیدا ہوسکتی ہیں ، تاہم یہ خطرہ وفاقی حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں عارضی طور پر گورنر راج یا مالیاتی ایمرجنسی کے نام پر پیپلزپارٹی کو دبائو میں رکھنے کی کوشش کریں گی اور یہ بھی کہ پیپلزپارٹی کے اندر ایک بڑے گروپ کو بغاوت پر آمادہ کیا جائے تاہم جوبھی باغی ہوگا اس کے لئے عوامی سطحہ پر مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت کے پاس اپنے مزید قائدین اور رہنمائوں کو گرفتاری سے بچانے کے لئے احتجاج کا راستہ ہی بچاہے اور پیپلزپارٹی نے احتجاج کا حتمی فیصلہ کیا تو یہی تحریک وفاقی حکومت کے خلاف ملک گیر تحریک کی شکل بھی اختیار کرسکتی ہے۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے