کالم

ادب، فن اور صحافت میں کمائی کیوں نہیں؟

فروری 23, 2019 4 min

ادب، فن اور صحافت میں کمائی کیوں نہیں؟

Reading Time: 4 minutes

سب مایا ہے۔ ایسا ہے نا ؟ بالکل ہے۔ خاصی دیر ہوگئی میں خود سےمکالمہ کیے جارہی ہوں۔ سوشل میڈیا پر گردش کرتی ڈاکٹر انور سجاد کی تصاویر کیا کہانی سُنا رہی ہیں،ایک بڑے چینل کی خبر میں آخری سطر لکھی ہے کہ ڈاکٹر انور سجاد کو بیت المال سے مالی امداد مل گئی، امداد ملنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ وہ عمران خان کے مداح ہیں۔ کیا ستم ظریفی ہے۔
ہر دو چار ماہ بعد خبر آجاتی ہے کہ فلاں آرٹسٹ دل کے عارضے میں مبتلا ہے، گھر کے کونے میں پڑا وقت کاٹ رہا ہے، معروف فنکارہ فاقہ کشی پر مجبور، فلموں کے معروف ہیرو کے پاس دینے کے لیے کرایہ تک نہیں،کبھی سوچا ایسا کیوں ہے ؟ اسکرین کی رنگینی تو ان فنکاروں کو کچھ اور ہی بنا کر پیش کرتی ہے، صاحبو! فنکاروں کی دنیا ایسی بالکل بھی نہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر فنکار فواد خان بن جائے یا ہر اداکارہ کے نصیب میں ماہرہ خان بننا لکھا ہو، یہ بھی عین ممکن ہے کہ معروف گلوکار کے پیچھے طبلہ بجاتے استاد جی کو ادھار پہ مہینہ نکالنا پڑتا ہو، ایسا نہیں کہ ایک ڈرامے میں فنکاری کرنے سے جو پیسے ملیں وہ پڑے پڑے ڈبل ہوجائیں، یہ بھی ضروری نہیں کہ فن کار کو ساری عمر کام ملتا رہے۔ بہت سے ڈراموں یا فلموں کے ایسے ہیرو، ہیروئن آپ کو یاد ہونگے جو گمنامی کی دنیا میں کھو گئے، یہ پروفیشن کچھ ایسا ہی بے یقین سا ہے۔

ادب میں بھی پیسہ نہیں ہے،شاید کسی کو ایسا لگتا ہو کہ ہر کتاب کا مصنف ہیری پوٹر لکھنے والی جے کے رولنگ کی طرح کتاب کی رائلٹی کی مد میں کروڑوں کما لیتا ہوگا، حقیقت اس کے عین متضاد ہے۔یہ کوئی آج کا رونا نہیں،معروف شعراء کے حالات زندگی اٹھا کر کھنگال لیں، غالب بھی اکثر دلی میں قرض ادھار کرکے گزارہ کرتے،روزی روٹی کے لیے شاہ کے قصیدے لکھتے۔ ادیب تاجر ہو نہیں سکتا جو اپنے الفاظ و خیال کے اچھے دام لگا سکے، اگر شاعر فی شعر کے حساب سے کاروبار کرنا جانتا تو جون ایلیا کی کئی نسلیں گھر بیٹھ کر پیسے میں کھیلتیں ۔ ایک ادیب اپنے دل و دماغ کا سارا عرق نچوڑ کر جس کتاب میں ڈال دیتا ہے وہ کتاب جیسے تیسے فروخت ہوجاتی ہے مگر اس گیان فروشی کی کتنے فیصد رقم مصنف کو ملتی ہے اس کا کوئی پیمانہ نہیں، رائلٹی کی مد میں طے ہونے والی رقم ملتی بھی ہے کہ نہیں اس کا بھی کوئی اعتبار نہیں۔ پبلشر کہتا ہے جو پیسے کتاب میں لگائے تھے وہی پھنسے ہیں،دنیا کہتی ہے کتاب لکھ لی اور ہمیں تحفہ بھی نہ دیا۔ کتاب پہ تبصرہ ہوتا ہے تو میگزین اخبار کا پیٹ بھر جاتا ہے مگر لکھنے والا خالی پیٹ ہی سوجاتا ہے۔ ہاں اگر شاعر کی ایک آدھ غزل کسی بڑے گائیک کے ذریعے مشہور گیت بن جائے تو شہرت مل جاتی ہے مگر مالا مال ہونے کی گارنٹی یہاں بھی نہیں۔

بیت المال سے امداد کرنے پر بھی وزیراعظم کا شکر گزار ادیب


صحافت اگر اصولوں کے ساتھ کی جائے تو اس میں بھی کروڑ پتی بننے کے چانسز نہایت کم ہیں۔ ہر صحافی لفافی ہو نہیں سکتا، اور ہر صحافی کی مارکیٹ ویلیو بھی ایک سی نہیں ہوتی ۔ ایسا دیکھا گیا ہے اوپر سے فوں فاں کرنے والا وہ صحافی جس نے ہر غلط کار کو دقت میں ڈال رکھا ہے، اپنے مہینے کا خرچ پورا کرنے کے لیے خود دقت میں پڑا ہوتا ہے۔ ہر صحافی اینکر نہیں ہوتا جو کسی کی بھی ڈکٹیشن پہ چل کر نوکری پکی کرلے۔ سچا صحافی اکثر بے روزگاری کے دکھ جھیلتا ہے، بعض اوقات تو یہ بھی ہوا ہے کہ کسی بیروزگار کی کسمپرسی رپورٹ کرنے والے صحافی کی اپنی جیب خالی ہوتی ہے۔ صحافی بزنس مین نہیں ہوتا، جو سچ جھوٹ کا دھندا کرنے لگے وہ صحافی نہیں ہوتا۔
فنکار خدمت کارڈ پنجاب حکومت نے جاری کیا مگر بند کردیا گیا، فنکار فنڈز بھی گاہے بگاہے جاری ہوتے رہتے ہیں، مگر غریب و نادار فنکار یا ادیب جب تک ہاتھ نہ پھیلائے اسے امداد جاری نہیں ہوتی۔ جب تک غمناک پس پردہ موسیقی کے ساتھ فنکار یا ادیب کی خالی آنکھیں اور پھیلے ہاتھ میڈیا پر نہ دکھائے جائیں، امدادی چیک جاری نہیں ہوتا۔
گذشتہ سال ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چئیرمین مختار احمد سے انٹرویو لے رہی تھی، میں نے شکوہ کیا کہ اتنے پی ایچ ڈی ڈاکٹرز جوتیاں چٹخاتے پھر رہے ہیں، کہنے لگے جب ہر دوسرا شخص اقبالیات، غالب یا داغ کی شاعری پہ ڈاکٹریٹ کرے گا، تو ایسا ہی ہوگا، پروفیشنل مضامین، سائنس ٹیکنالوجی میں ریسرچ پر مبنی ڈاکٹریٹ کرنے والے با آسانی ملازمت حاصل کرلیتے ہیں، فلسفے اور ادب میں کیے جانے والے ڈاکٹریٹ کی اہمیت محدود ہوتی جارہی ہے ۔ آج معروف ڈرامہ نویس ڈاکٹر انور سجاد کا حال دیکھ کر سابق چئیرمین ایچ ای سی کی بات یاد آگئی، تیزی سے بدلتی مسابقت کی اس دنیا میں فن و فنکار، ادب و ادیب اور صحافیوں کے لیے جگہ سکڑتی جا رہی ہے۔

عفت حسن رضوی، اسلام آباد میں مقیم مصنفہ و صحافی ہیں ۔ نجی ٹی وی چینلز کے لیے سپریم کورٹ اور دفاعی امور کی رپورٹنگ کرتی رہی ہیں ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے