متفرق خبریں

مشرف کو واپس لانے کے لیے کیا کیا؟

مارچ 7, 2019 2 min

مشرف کو واپس لانے کے لیے کیا کیا؟

Reading Time: 2 minutes

رضوان عارف

پاکستان کی سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے پوچھا ہے کہ پرویز مشرف کو واپس لانے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ قانون کے سامنے سب برابر ہیں، کوئی چھوٹا بڑا نہیں ۔

سپریم کورٹ میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ درج کرنے کے سنہ ۲۰۱۳ میں دیے گئے فیصلے پر نظرثانی درخواست کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں بنچ نے کی ۔

عدالت کو درخواست گزار وکیل توفیق آصف نے بتایا کہ فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوا، اس لیے توہین عدالت کی درخواست دائر کی ۔

سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت کے رجسٹرار سے مقدمے میں تاخیر پر رپورٹ طلب کی ہے ۔ عدالت نے ہدایت کی ہے کہ خصوصی عدالت کے رجسٹرار رپورٹ میں ٹرائل میں تاخیر کی وجوہات بیان کریں ۔

عدالت نے کہا ہے کہ خصوصی کے رجسٹرار پندرہ دنوں میں رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائیں ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق عدالت عظمی نے اٹارنی جنرل سے وفاقی حکومت کا جواب بھی مانگا ہے کہ ملزم کو پاکستان واپس لانے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے؟۔

چیف جسٹس نے کہا کہ غیر ضروری مقدمات کو زیر التوا میں نہیں رکھیں گے ۔ چیف جسٹس نے وکیلوں سے کہا کہ آپ کو خوشی ہو گی یہ سن کر گزشتہ ڈیڑھ ماہ میں زیر التوا مقدمات میں دو ہزار کی کمی ہوئی ہے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پرویز مشرف کو بیرون ملک عدالت نے نہیں بلکہ حکومت نے بھیجا تھا، عدالتی فیصلے میں پرویز مشرف کو بیرون ملک بھیجنے کا نہیں کہا گیا تھا ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر پرویز مشرف واپس نہیں آتے تو اسکائپ پر بیان ریکارڈ کروا دیں ۔

عدالت نے ہدایت کی کہ آئیندہ سماعت پر اٹارنی جنرل ذاتی حیثیت میں پیش ہوں ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں، کوئی چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا ۔

عدالت نے کہا کہ آئیندہ سماعت پر تعین کریں گے کہ پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کی کارروائی کو کیسے آگے بڑھایا جائے ۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نئی خصوصی عدالت تشکیل پاچکی ہے، پرویز مشرف کا ٹرائل کیوں رکا ہوا ہے ۔

درخواست گزار وکیل نے کہا کہ پرویز مشرف بیرون ملک بیٹھے ہوئے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت پرویز مشرف کو لانے کے لیے کیا کررہی ہے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے یہ تاثر دیا گیا کہ ای سی ایل سے نام عدالت نے نکالا ہے، پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالنا حکومت کا کام تھا ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پرویز مشرف کو واپس لانا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے، پرویز مشرف 342 کا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے نہیں آتے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ انکاری ہیں ۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا ملزم کے ہاتھوں عدالت یرغمال ہوسکتی ہے، کیا ملزم جان بوجھ کر نہ آئے تو عدالت بے بس ہوجاتی ہے؟۔

خیال رہے کہ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد پرویز مشرف کا ٹرائل کرنے والی خصوصی عدالت کا سربراہ نہیں لگایا تھا ۔

آرٹیکل چھ کے تحت ٹرائل کرنے والی خصوصی عدالت کے جج جسٹس یاور علی ۲۱ اکتوبر 2018 کو ریٹائر ہوگئے تھے ۔

وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم خصوصی عدالت کے سربراہ لگانے کے بارے میں سوالوں کا جواب دینے سے انکار کر چکے ہیں ۔ فروغ نسیم اس مقدمے میں پرویز مشرف کے وکیل رہ چکے ہیں ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے