متفرق خبریں

یوم خواتین پر خواتین کارکن برطرف

مارچ 8, 2019 3 min

یوم خواتین پر خواتین کارکن برطرف

Reading Time: 3 minutes

پاکستان کے مشہور ڈرامہ چینل ’ہم’ کی جانب سے حال ہی میں شروع کیا جانے والا خبروں کا چینل ’ہم نیوز‘ ایک ہی سال میں خواتین ملازمین کو نوکریوں سے نکالنے لگا ہے ۔

بتایا گیا ہے کہ نیوز روم میں کام کرنے والی خواتین کی حوصلہ شکنی کے لیے رات گئے کی ورکنگ شفٹ لگا دی گئی ہیں ۔
پاکستان ٹوئنٹی فور سے بات کرتے ہوئے ہم نیوز لاہور کی ایک سابق کارکن نے بتایا کہ انہیں دو روز قبل ادارے کے ایچ آر ڈپارٹمنٹ نے فون کرکے کہا کہ آپ کے پاس دو راستے ہیں، یا تو خود نوکری سے استعفیٰ دے دیں یا پھر ہم آپ کو نکال دیتے ہیں۔

خاتون کے مطابق وہ ایک بڑے چینل سے کئی برسوں سے وابستہ رہیں اور میڈیا میں ان کا نو سالہ تجربہ ہے ۔ انہوں نے واضح کیا کہ ’ہم نیوز؛ کا ماحول بہت اچھا اور چینل کے مالکان کی پالیسی خواتین کے لیے دوسرے چینلز کے مقابلے میں بہترین تھی ’میں خود بھی یہاں زبردست کام کررہی تھی تاہم ادارے کی جانب سے اچانک بلاوجہ نکالے جانے پر شدید دھچکا لگا ہے۔؛


ہم نیوز لاہور سے حال ہی میں نکالی کی گئی، ٹیکنکل میڈیا شعبے کی ایک سینیئر صحافی نے نام نہ شائع کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ ملکی چینلز اور غیر ملکی اداروں میں کام کا چودہ سالہ تجربہ رکھتی ہیں تاہم انہیں ایک فون کال کے ذریعے بتایا گیا کہ انہیں ملازمت سے نکال دیا گیا ہے۔

ان کے مطابق جب انہوں نے چینل کے ہیومن ریسورس شعبے کے ایک بڑے افسر کو ای میل کے ذریعے آگاہ کیا کہ ’ہم نیٹ ورک‘ کی جانب سے خواتین کی خودمختاری کا دعویٰ جھوٹ ہے، تو جواب میں ان کو کال کر کے بتایا گیا کہ ’آپ کو آخرے مہینے کی تنخواہ نہیں دی جائے گی، آپ کو ای میل نہیں کرنی چاہیئے تھی۔؛

خاتون صحافی نے کہا کہ وہ سلطانہ صدیقی کی شخصیت کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں تاہم ایک خاتون مالکن کے چینل میں خواتین کے ساتھ زیادتی ہونا بہت افسوس کی بات ہے۔


ہم نیوز اسلام آباد ہیڈ آفس سے بھی کئی خواتین کو نوکریوں سے نکال دیا گیا ہے ۔ ایک خاتون کا کہنا ہے کہ انہیں بھی زبردستی استعفیٰ دینے کے لیے ادارے کے ہیومن ریسورس کی جانب سے فون کال موصول ہوئی ہے ۔


ہم نیوز اسلام آباد ہیڈ آفس میں کام کرنے والی ایک خاتون صحافی نے پاکستان ٹوئنٹی فور کو بتایا کہ ’چینل انتظامیہ نے خواتین کارکنان سے ان کی رائے لیے بغیر شام چار سے رات بارہ بجے کی ڈیوٹی کا شیڈول بنادیا ہے جس پر خواتین ملازمین تشویش زدہ ہے۔؛

ان کا کہنا تھا کہ رات شفٹ کی گاڑی ایک ساتھ سارے اسٹاف کو گھر چھوڑنے جاتی ہے۔ ’پہنچتے پہنچتے رات کے دو بج جاتے ہیں۔؛

انہوں نے کہا کہ والدین ویسے ہی بہت مشکل سے جاب کرنے کی اجازت دیتے ہیں، اب رات دو بجے گھر واپسی کا سن کر والد نے نوکری جاری رکھنے سے منع کردیا ہے۔

بتایا گیا ہے کہ ایک اور شفٹ صبح سات بجے کی رکھی گئی ہے جس کے لیے خواتین کارکنان کو صبح ساڑھے پانچ بجے گھر سے نکلنا پڑتا ہے۔

خاتون کارکن نے الزام لگایا ہے کہ نیوز روم میں کام کرنے والے مردوں کو ان کی مرضی کے اوقات میں بلایا جاتا ہے۔


ہم نیوز چینل میں کام کرنے والی خواتین کارکنان کا کہنا ہے کہ ’ہم نیوز؛ ادارے کے طور پر بہترین تھا، اسی لیے وہ دیگر چینلز میں اپنی مستقل محفوظ ملازمتیں چھوڑ کر یہاں آئیں ۔

بتایا گیا ہے کہ چینل نے نشریات کے آغاز سے قبل جب ان لڑکیوں کو نوکری دی تب کہا گیا تھا کہ ادارے میں تیس فیصد خواتین ملازمین ہوں گی کیونکہ یہ چینل پالیسی ہے۔

ملازمت سے فارغ کی گئی خواتین کارکنوں نے الزام لگایا ہے کہ جب سے اینکر محمد مالک نے ہم نیوز کے صدر کے طور پر چینل کا انتظام سنبھالا ہے ادارے سے منسلک پرانے کارکنوں کو ملازمت سے نکالے جانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جبکہ خواتین کے لیے رات گئے کی شفٹ پالیسی بھی متعارف کرائی گئی ہے۔


ہم نیوز کی مالک سلطانہ صدیقی نے پاکستان ٹوئنٹی فور سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جو لڑکی کام نہیں کرے گی اسے فارغ کیا جائے گا، نکالے جانے والے ملازمین ایسی ہی شکایا ت کرتے ہیں۔؛

تاہم انہوں نے اس عزم کو دہرایا کہ مستقبل میں بھی ان کا چینل خواتین کارکنان کو ملازمتیں ترجیحی بنیادوں پر دے گا۔

جب سلطانہ صدیقی سے پوچھا گیا کہ حال ہی میں خواتین ملازمین کو نکالنے کا سلسلہ زور کیوں پکڑ گیا ہے تو انہوں نے کہا کہ ان کے علم میں نہیں، اس بارے میں چینل کے نئے پریذیڈنٹ محمد مالک ہی جواب دیں گے۔


پاکستان ٹوئنٹی فور نے چینل کے نئے صدر محمد مالک سے بات کرنے کے لیے تواتر سے رابطے کی کوشش کی تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا ۔ ان کا مؤقف معلوم کرنے کے لیے پیغام بھی چھوڑا گیا مگر انہوں نے جواب نہ دیا ۔


(نوٹ: واضح ہو کہ پاکستان ٹوئنٹی فور سے بات کرنے والی ہم نیوز کی سابق اور موجودہ کارکن خواتین نے اس ڈر سے نام نہ لکھنے کی درخواست کی ہے کہ اگر انہوں نےایک چینل کی غلط پالیسی یا کسی شخصیت کا نام لیا تو انہیں آئندہ پاکستان کی نیوز میڈیا انڈسٹری میں منفی رویوں کا سامنا کرنے پڑے گا۔)

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے