کالم

بڑے لوگوں کی سنہری یادیں: شاہ مردان شاہ ثانی پیر پگارا ہفتم ۔ ۳

مارچ 8, 2019 4 min

بڑے لوگوں کی سنہری یادیں: شاہ مردان شاہ ثانی پیر پگارا ہفتم ۔ ۳

Reading Time: 4 minutes

تحریر: عارف الحق عارف

پیر پگارا کی سیاست بھی ان کے منفرد انداز گفتگو اور ذومعنی جملوں کی طرح اپنی مثال آپ تھی۔ وہ سیاست اور اخبارات پر سنسر کی پاپندیوں کے دور میں بھی اپنی بات قانون کی گرفت میں آئے بغیر بڑی خوب صورتی سے کہنے کا گر جانتے تھے۔وہ شطرنج اور علم نجوم کے بھی ماہر تھے اور سیاست میں بھی اپنے مہرے اس مہارت سے چلتے تھےکہ مخالفین دنگ رہ جاتے تھے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ان سے میری دوستی میں پختگی آتی جارہی تھی۔اس کا اندازہ مجھے بہت بعد میں ہوا کہ وہ شروع میں مجھے مختلف طریقوں سے آزماتے بھی جا رہے تھے کہ میں ان کے اعتماد پر کتنا پورا اترتا ہوں۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنی جماعتی سیاست کی اندرونی چپقلش اور دوسری جماعتوں سے اتحاد اور گٹھ جوڑ کے بارے میں کھل کر باتیں کرتے جن میں سے ہر بات میں اخبار کے لئے خبر ہوتی لیکن میں نے کبھی کوئی ایسی خبر نہیں دی جس سے ان کے وقار یا طرز سیاست پر حرف آئے یا ان کی شخصیت کو گزند پہنچے۔لیکن اخبار کے لئے خبر دینا بھی میرے فرائض منصبی میں شامل تھا اور اگر نا دیتا تو یہ اپنے فرض سے غفلت یا لا پروائی ہوتی۔ اس لئے میں خبر وہی دیتا جو واقعی سنجیدہ اور قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث ہو تی اور اس کو ایسے انداز سے لکھتا کہ اس میں خبریت کا پہلو تو موجود ہوتا تاہم ان کی ذات یا مسلم لیگ کو زک پہچانے والی کوئی بات نا ہوتی۔کافی عرصے کے بعد جب انہیں یہ اطمینان ہو گیا کہ میں ایک لائق اعتماد دوست کے علاوہ ایک ذمہ دار خبر نگار ہو نے کا ثبوت دے چکا ہوں اور وہ اب آنکھیں بند کرکے مجھ پر اعتماد کرسکتے ہیں۔ تو وہ سیاسی اور غیر سیاسی ہر معاملے پر کھل کر بات کرنے کے علاوہ مشورہ بھی کرنے لگے۔ ان کا مشورہ کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ صلاح مشورے کے لئے روزانہ دوستوں کی محفل سجاتے۔ جس میں ان کے بے تکلف اور قریبی دوست شریک ہوتے۔ان میں اب میرا بھی اضافہ ہو گیا تھا۔تفصیلی تبادلہ خیال ہوتا، ہر شریک محفل سے آتے ہی پوچھتے “کیا خبر ہے” پھر اس پر گفتگو ہوتی سب کی رائے اور بات چیت سننے کے بعد نہائ اختصار کے ساتھ ایک دو جملوں میں اپنا مدعا بیان کرتے جس کو عام زبان میں نپی تلی رائے کہا جاتا ہے۔کراچی میں اس وقت کے ایک بڑے قانونی دماغ خالد اسحاق ایڈووکیٹ کے بنگلے والی محفل کے بعد مختلف الخیال دوستوں اور اصحاب علم کی یہ دوسری مجلس تھی۔ فرق یہ تھا کہ پہلی مجلس ہر اتوار کو صبح دس بجے سے ایک بجے تک ہوتی اور پیر پگارا کے کنگری ہاؤس کی یہ مجلس روزانہ برپا ہوتی۔ان کے ایسے بے تکلف دوستوں کی تعداد یوں تو زیادہ تھی لیکن روزانہ ساڑھے گیارہ بجے سے ڈیڑھ دو بجے تک پانچ سے ساتھ آٹھ دوست لازمی طو پر شریک ہوتے۔اس کو بعض دوست پیر پگارا کی مجلس شوری بھی کہتے تھے جس کے ارکان میں ان کے مریدوں میں سے شاز و نادر ہی کبھی کوئی شامل ہوتا۔پیر صاحب کے ساتھ ان کے یہ دوست روزمرہ کے مقامی،ملکی اور خارجہ امور کو بھی زیر بحث لاتے،کھل کر تبادلہ خیال ہوتا۔جس میں ہر ایک اپنا اپنا نکتہ نظر پیش کرتا اور پیر صاحب بڑے صبر کے خاموشی سے سب کی کی رائے سنتے۔ یہ شرکا روزانہ کے اخبارات پڑھ کر اور بات چیت کے موضوعات کا انتخاب کر کے آتے۔جس کی وجہ سے گفتگو بروقت اور موقع محل کے عین مطابق ہو جاتی۔اس کے بعد اگر وہ بات کرتے یا کوئی سیاسی بیان دیتے یا کوئی ان سے کسی سیاسی معاملے پر سوال کرتا تو ان کا جواب تازہ ترین معلومات سے لیس اپنے اندر خبریت کا پہلو لئے ہوتا۔ وہ اس وقت متحدہ مسلم لیگ کے سربراہ تھے اور ایک ملک کی ایک بڑی سیاسی کے غیر متنازعہ سیاسی اور پاکستان اور بھارت میں رہنے والے مسلم اور غیر مسلم لاکھوں عقیدت مندوں کے روحانی رہبر تھے۔مریدوں کی تعداد کے اعتبار سے ان گدی مخدوم طالب المولی کی ہالہ کی گدی کے بعد دوسری بڑی گدی تھی۔اس کی وجہ سے جماعت کے تمام سیاسی جماعتیں ان کا یکساں احترام کرتی تھیں۔
پیرپگارا سے جب بھی میں ان سے خبر کے لئے ملتا اور بات چیت کرتا تو وہ کوئی بھی سیاسی بیان دینے سے قبل اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ ساتھ مجھ سے بھی مشورہ ضرور کرتے، کہ یہ بات کرنے یا بیان دینے کے کیا کیا سیاسی اثرات ہو سکتے ہیں۔ میں نے بھی ان کے ساتھ اعتماد کی اس فضا کا بھرم رکھا اور کبھی بھی ان کے ساتھ اپنے تعلق کا غلط فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ ان کے بھروسے اور دوستی کو خلوص کے ساتھ نبھایا۔اگر میں چاہتا تو اعتماد میں کی جانے والی کسی بھی خبر کو بڑھا چڑھا کر بریکنگ نیوز بنا سکتا تھا۔لیکن وہ صرف ایک دن کا کھیل اور واہ واہ ہوتی اور دوسرے دن سے کنگری ہاؤس میں اپنا داخلہ مشکل ہوجاتا اور پیر صاحب کی نظروں سے بھی گر جاتا۔ میری حیثیت ایک قابل اعتماد دوست کی نہیں بلکہ ایک عام سے اخباری رپورٹر کی ہوتی جو ہر سنی سنائی جھوٹی سچی خبر کو مبالغے کے ساتھ چھاپ دیتا ہے۔
جاری ہے

عارف الحق عارف نے 1967 میں روزنامہ جنگ سے صحافت کا آغاز کیا،جہاں 2002 تک وابستہ رہے،اسی سال جیو ٹی وی سے وابستہ ہوئے جہاں بطور ڈائریکٹر دس سال سے زائد عرصہ گزارا، عارف الحق عارف کی صحافت سے 52 سالہ وابستگی کا یہ شاندار سفر دلچسپ ہے،پاکستان 24 میں “ بڑے لوگوں کی سنہری یادیں “ کے اس تحریری سلسلے میں آپ کو نامور لوگوں کی متاثر کن کہانیاں پڑھنے کو ملیں گی۔امید ہے قارئین کے لیے سنہری یادوں سلسلہ دلچسپ ہوگا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے