پاکستان پاکستان24

حکومت نے جامعہ حفصہ کے لیے زمین کیوں دی؟ سپریم کورٹ

مارچ 12, 2019 3 min

حکومت نے جامعہ حفصہ کے لیے زمین کیوں دی؟ سپریم کورٹ

Reading Time: 3 minutes

پاکستان کی سپریم کورٹ نے وفاقی دارالحکومت کے مرکز میں واقع لال مسجد کی انتظامیہ کو مدرسے کے لیے زمین الاٹ کرنے پر سوال اٹھائے ہیں ۔ عدالت عظمی کے سینئر ترین جج جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ کسی نجی ادارے یا فرد کو مدرسہ بنانے یا چلانے کی اجازت نہیں، یہ حکومت کا کام ہے ۔

تین رکنی بنچ نے سماعت کے بعد حکم نامے میں لکھا کہ عدالت نے وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) کو جامعہ حفصہ کی تعمیر کا جائزہ لینے کا کہا تھا، عدالت نے مدرسے کے لیے زمین کسی کو دینے کا حکم نہیں دیا تھا ۔

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اگر سی ڈی اے نے کسی کو زمین دی ہے تو واپس لے ۔ عدالت نے آبزرویشن دی ہے کہ جامعہ حفصہ کی تعمیر اور چلانا حکومت کا کام ہے، کسی نجی ادارے یا شخص کو مدرسہ بنانے اور چلانے کی اجازت نہیں ۔
عدالت نے لال مسجد آپریشن میں دو لاپتہ افراد کی معلومات طلب کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ اگر دونوں لاپتہ افراد زندہ ہیں تو والدین کو حوالگی یقینی بنائی جائے ۔ عدالت نے لاپتہ افراد کے حوالے سے ٹھوس اقدامات پر مبنی رپورٹ بھی طلب کی ہے ۔

اس سے قبل چیف کمشنر اسلام آباد اور قائم مقام چیئرمین سی ڈی اے عامر علی احمد عدالت میں پیش ہوئے ۔

جسٹس گلزار احمد نے وفاقی ترقیاتی ادارے کے سربراہ سے پوچھا کہ چیئرمین صاحب، بتائیں مسجد کب بنی، اس کا رقبہ کتنا ہے اور کون چلا رہا ہے؟

سی ڈی اے کے چیئرمین نے بتایا کہ 1970 میں وفاقی ترقیاتی ادارے نے 9 ہزار 533 گز زمین الاٹ کی، 1988 میں مدرسہ جامعہ حفظہ کیلئے 206 گز زمین دی گئی ۔

وفاقی ترقیاتی ادارے کے سربراہ عامر احمد علی نے بتایا کہ عدالتی فیصلے کے بعد جامعہ حفصہ کیلئے زمین مختص کی، جامعہ حفصہ کی انتظامیہ کے ساتھ متبادل جگہ کیلئے معاہدہ ہوا ۔
عامر احمد علی نے کہا کہ مولانا عبدالعزیز کو 2004 میں بطور خطیب برطرف کیا گیا، برطرفی کے باوجود مولانا عبدالعزیز نے مسجد کا کنٹرول نہیں چھوڑا ۔ جسٹس گلزار احمد نے پوچھا کہ انتظامیہ نے ام حسان کے ساتھ معاہدہ کس حیثیت میں کیا؟ وہ تو برطرف شدہ سرکاری ملازم کی اہلیہ ہیں۔

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ سی ڈی اے اپنی پراپرٹی کا کنٹرول واپس لے، سرکاری زمین پر نجی شخصیات کو مدارس نہیں بنانے دیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی زمین اگر بانٹنی ہی ہے تو غریبوں کو دیں ۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جامعہ حفصہ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ۔

عدالت نے لال مسجد کیس کی سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کرتے ہوئے چیئرمین سی ڈی کو ہدایت کی کہ تفصیلی رپورٹ دیں کہ جامعہ حفصہ کو الاٹ کی گئی 20 کنال اراضی کی قانونی پوزیشن کیا ہے ۔

لال مسجد کیس کی سماعت کے دوران دو عمر رسیدہ افراد عدالت میں رو پڑے ۔ انہوں نے دہائی دی کہ ہمیں عمارت اور زمین نہیں چاہئیے اپنے بچے چاہئیں، ہمارے بچے 2007 سے لا پتہ ہیں ۔


ایک بزرگ شہری نے کہا کہ ہمارے بچے کسی قید میں میں ہیں، انہیں رہا کرایا جائے ۔ ایک اور شہری نے کہا کہ ہماری اپنے بچوں سے ملاقات کرائی جائے، انڈین جاسوس سے اس کےاہل خانہ کی ملاقات کروائی جاتی ہے تو ہماری اپنے بچوں سے ہماری ملاقات کیوں نہیں ہوسکتی ۔
عدالت نے بزرگوں کی فریاد پر آئی جی اسلام آباد سے چار ہفتے میں لال مسجد کے دونوں لاپتہ افراد کے بارے میں تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ۔

لال مسجد کے وکیل طارق اسد نے کمرہ عدالت میں احتجاج کیا اور کہا کہ عدالت میری بات سن ہی نہیں رہی ۔ طارق اسد کا کہنا تھا کہ لال مسجد کے بارے میں عدالتی حکم یکطرفہ سماعت کر کے جاری کیا گیا ہے ۔

طارق اسد نے جسٹس گلزار احمد سے کہا کہ گذشتہ تاریخ پر میرا آپ سے اختلاف ہوا تھا اس لئے آپ مجھے سن نہیں رہے، انہوں نے بنچ کے سربراہ سے کہا کہ آپ یہ مقدمہ چیف جسٹس کی عدالت میں بھجوائیں ۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ہم نے سماعت ملتوی کر دی ہے، آپ چیف جسٹس کو درخواست دے کر مقدمہ اپنی مرضی کی عدالت میں لگوا لیں ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے