پاکستان24 متفرق خبریں

جیو کارکن ادھار مانگنے پر مجبور

مارچ 13, 2019 3 min

جیو کارکن ادھار مانگنے پر مجبور

Reading Time: 3 minutes

عفت حسن رضوی

جیو نیوز انتظامیہ نے اپنے کارکنوں کو ۱۲ مارچ ۲۰۱۹ کو نصف تنخواہ ادا کی، یہ تنخواہ دسمبر ۲۰۱۸ کی ہے، یعنی تنخواہ تین ماہ بعد آئی وہ بھی نصف ۔
(پاکستان ٹوئنٹی فور نے اسی سلسلے میں جیو نیوز کے ملازمین سے گفتگو کی، ہمیں ڈر تھا کہ شاید یہ افراد اپنا نام لکھوانے پر راضی نہ ہوں، مگر سب ہی نے ایک جواب دیا کہ تنخواہ ہمارا حق ہے جو ہمیں نہیں مل رہا، اس میں نام ظاہر کرنے میں قباحت کیسی!)
جیو نیوز کے ساتھ کراچی میں وابستہ ایک کانٹینٹ انالسٹ کا ماننا ہے کہ ’جیو بحیثیت ادارہ خسارے میں نہیں ہے کمرشل اتنے ہی ہیں جتنے پہلے تھے نہ ریٹس میں کمی ہوئی ہے، پی ایس ایل کے براڈکاسٹنگ راٹس خریدنے کے پیسے ہیں لیکن ملازمین کو تنخواہیں دینے کےلیے نہیں ہیں، تین ماہ بعد تنخواہ ملی وہ بھی آدھی، جو صرف ایک نوکری کرتا ہے اس کےلیےتو بہت مشکل ہے۔‘
مذکورہ کارکن نے جیو سے وابستہ اپنے ساتھیوں کی روداد سناتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے کولیگز نے اپنے بچے اسکولوں سے نکلوا لیے ہیں، سفید پوش دوست ایک دوسرے سے کبھی 500 تو کبھی 1000 مانگ رہے ہوتے ہیں کہ یار گھر کچھ پکانے کےلیے لے جائیں گے، ہمارے ادارے میں ایسے ملازمین بھی ہیں جن کی تنخواہ 15 ہزار یا تیس ہزار ہے ان کو بھی آدھی تنخواہ ملی ہے، ایک کو تین ماہ بعد ساڑھے سات ہزار روپے ہاتھ میں آئے ہیں،ہزار کے ساتھ نوٹ لہرا کر کہتا ہے ان کا کیا کروں ؟ بچوں کے امتحانات کے نتائج آئے ہیں نئی کلاسیس میں جارہے ہیں، نئی کتابیں اور بستہ خریدنے کے بھی پیسے نہیں ہیں، اسکول فیس الگ ہے، جب ہمارے بچے اسکول نہیں جاپائیں گے،ہم گھر کچھ کھانے کے لیے نہیں لے کر جائیں گے تو کیا کریں گے۔ جیو کا ایک دوست کہہ رہا تھا کہ بچوں سے شرم آتی ہے کہ ان کو کچھ خرید کر نہیں دے سکتا۔ جب وہ سو جاتے ہیں تو گھر جاتا ہوں۔


جیو نیوز اسلام آباد سے منسلک سینئر رپورٹر اعظم خان نے تین ماہ کی تنخواہ نہ ملنے کے بعد حال ہی میں جیو نیوز کو خیر باد کیا ۔ وہ کہتے ہیں’ مجھے لگتا ہے چونکہ نئی حکومت نے نیوز میڈیا کو لفٹ نہیں کرائی اسی لیے چینلز اپنے ملازمین کو بطور ہیومن شیلڈ استعمال کر رہے ہیں، یہ میڈیا ورکرز کے لیے مشکل وقت ہے، میں یہ مانتا ہوں کہ چینلز کے منافع میں کمی ہو سکتی ہے، مگر یہ بات گنے چنے ادروں کے حوالے سے مانی جاسکتی ہے جن کے ادارے کا کام ہی صحافت ہے‘۔


جیو نیوز کے انٹیگریشن سروسز ڈپارٹمنٹ ،براڈ کاسٹ گرافکس میں تیرہ سال سے وابستہ مسعود مرزا کہتے ہیں : ’ میں ابھی تک ۲۰۱۸ میں ہی جی رہا ہوں ، اب جا کر پچھلے سال ۱۵ دسمبر تک کی تنخواہ ملی ہے، یعنی میں اپنے ہیپی نیو ئیر سے اب بھی پندرہ دن پیچھے چل رہا ہوں ، دراصل جب سے بحران شروع ہوا ہے جیو میں بھی پیشہ ورانہ ماحول منجمند ہوگیا ہے،پرانی چیزیں اپ گریڈ نہیں کی جارہیں،ایک ’کام چلاو‘ کی سی فضا ہے، نیوز روم میں ’ گنجائش نکال لو یار‘ کی بازگشت سنائی دیتی ہے، لگتا یہی ہے کہ جیو نیوز ادارہ ہر ممکن وسائل میں بچت کررہی ہے، بظاہر لگتا تو یہی ہے کہ ادارہ خسارے میں ہے مگر ورکرز کو دوہری پریشانی ہے، تنخواہ مل نہیں رہی ساتھ ہی نوکری سے نکالے جانے کا خوف الگ، ان حالات میں صرف ملازمین نہیں ان کے اہل خانہ بھی براہ راست متاثر ہورہے ہیں، ہم اب جیسے خرچہ چلا رہے ہیں اسے بچت ہزگز نہ کہیں ، ہم تو ضروری اخراجات میں بھی دل مار رہے ہیں‘۔
جیو نیوز پشاور کے بیورو چیف محمود جان نے دو روز قبل فیس بک پہ پوسٹ کیا ’پاکستانی میڈیا کے بعض اذیت ناک لمحات‘ جس میں انہوں نے لکھا ’ جب آپ کے پاس کھانے پینے کے پیسے ہوں اور آپ کسی ایسے آفس بوائے سے کھانا منگوائیں جو چار ماہ سے تنخواہ نہ ملنے کے باعث بھوکا، آپ کے سامنے کھانا رکھتے ہی واپس مڑے تو اس کی آنکھوں میں آنسو ہوں، اس سے زیادہ اذیت کا کوئی کیا تصور کرے گا؟ پتہ نہیں سیٹھ لوگ ان چھوٹی تنخواہوں والوں کی تنخواہ کیوں روکتے ہیں؟‘۔


اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے نمبر ون نیوز چینل ہونے کے دعوے دارجیو نیوز کے ملازمین اس وقت کس کرب و پریشانی سے گزر رہے ہیں ، بعض کو لگتا ہے یہ ابتر حالات مصنوعی طور پر پیدا کیے گئے ہیں ، جبکہ بعض کے نزدیک یہ ادارے کی جانب سے ایک خاموش پیغام ہے کہ کوئی بہتر روزگار ڈھونڈ لیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے