کالم

بڑے لوگوں کی سنہری یادیں۔ یونس ریاض۔۲

مارچ 13, 2019 3 min

بڑے لوگوں کی سنہری یادیں۔ یونس ریاض۔۲

Reading Time: 3 minutes

تحریر: عارف الحق عارف

میر خلیل الرحمن یونس بھائی کی صلاحیتوں اور ایڈیٹر کی حثیت سے ان کی کارکردگی سے خوش تھے۔ اسی طرح وہ اخبارات کے مالکان اخبارات کے ایڈیٹروں سے بھی پیشہ ورانہ رابطہ رکھتے تھے اور اپنے حسن اخلاق کی وجہ سے معروف و مقبول تھے۔ جب 1993 میں انہوں نے اپنا روزانہ اخبار Bevpar نکالا تو وہ بھی مالکان اور ایڈیٹروں کی تنظم APNS اور CPNE کے رکن بن گئے اس دوران انہوں نے اپنے متوازن موقف اور اچھے تعلقات کی بنا پر دونوں تنظیموں کے ارکان کا اعتماد حاصل کرلیا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ عرصہ بعد ان کو اتفاق رائے سے APNS اور CPNE کا چیف الیکشن کمشنر منتخب کر لیا گیا۔وہ مسلسل 12 سال تک اس منصب پر فائز رہےاور علالت سے قبل 2016 تک اپنی نگرانی میں اے پی این ایس اور سی پی این ای کے درجنوں انتخابات کراتے رہے اور کبھی کوئی تنازعہ پیدا نہیں ہوا۔ ان کا انتقال ہوا تو اے پی این ایس این ای دونوں اداروں نے تمام رکن اخبارات کو ان کے انتقال اور لواحقین سے تعزیت کی خبر اشتہار کی صورت میں جار ی کی۔

یہاں میں ایک ایسے کار خیر کا ذکر بھی ضروری خیال کرتا ہوں جو صدقہ جاریہ کی شکل میں آج بھی جاری ہے اور جس کے اجرا میں میر خلیل الرحمن، مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی کے ساتھ ساتھ یونس بھائی اور کچھ اور حضرات کا بھی تعاون شامل تھا۔1985 سے 1989 تک کے کراچی کے حالات بڑے مخدوش تھے۔ شہر میں قتل غارت گری کا بازار گرم تھا۔ روزانہ ٹار گٹ کر کر کے شہریوں کو مارا جارہا تھا۔ شہری بڑے پریشان تھے۔ رمضان کا ماہ مبارک ابھی ابھی رخصت ہوا تھا کہ مفتی رفیع عثمانی نے میر صاحب کو تجویز دی کہ شہر میں جاری قتل و غارت گری اور افراتفری کے خاتمے میں جنگ اخبار اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔کہ وہی سب سے بڑا اور موثر اخبار ہے۔ انہوں نے تجویز کیا کہ اخبار کے ادارتی صفحہ کے اوپری کونے میں قرآنی آیات کو روزانہ شائع کیا جائے۔اور متعدد آیات بھی تجویز کیں۔کچھ دنوں تک وہ بعض منتخب آیات بھجواتے بھی رہے۔ میر صاحب نے ان کی تجویز سے تو اتفاق کر لیا ۔لیکن وہ ایڈیٹر سے رائے بھی لینا چاہتے تھے۔کہ روزانہ شائع
کیا جائے یا نہیں۔

میر صاحب اسی سلسلے میں یونس بھائی کے کمرے میں آئے تو میں بھی وہاں موجود تھا۔ انہوں نے ہم دونوں سے فرمان الہی کو روزانہ شائع کرنے کے بارے میں رائے طلب کی۔ تو ہم دونوں نے اس کی پرزور حمائت کی اور انہیں بتایا کہ اس کو پسند کیا جائے گا۔ اسی دوران میرے ذہن میں خیال آیا کہ اگر یہ سلسلہ روزانہ جاری رہے گا تو قرآن مجید کا کوئی سلیس،قابل فہم اور آسان اردو ترجمہ شائع ہونا چاہیئے۔ اسی زمانے میں مولانامودودی کا ترجمہ قرآن بہت ہی نفیس جلد میں شائع ہوا تھا اور میں اس کو ہدیہ کے طور پر دفتر اور باہر کے دوستوں بلکہ شادی بیاہ میں بھی دیا کرتا تھا۔ دفتر بھی اس کے چند نسخے لایا تھا اور مختلف ساتھیوں کو ہدیہ کئے تھے۔ ایک نسخہ یونس ریاض کی میز پر بھی رکھوا دیا تھا۔ میر صاحب دوبارہ ان کے پاس آئے تو بھی میں یونس صاحب کے پاس ہی تھا اور چونکہ یہ مسئلہ میر صاحب کے ذہن میں تازہ تھا انہوں نے ترجمہ قرآن کو دیکھا اور اس میں دلچسپی ظاہر کی۔ اس میں سے جستہ جستہ ترجمہ پڑھا اور تعریف کی۔اور کہا کہ یہ تو آسان اور سلیس اردو میں ہے۔ میں اس سے ضرور استفادہ کروں گا۔یونس صاحب اور میں نے ان سے کہا کہ یہ آپ ہی کے لئے ہے اسے اپنے ساتھ لے جاہیں۔ یہ واقعہ میری موجودگی میں ہوا تھا ۔اس لئے اچھی طرح یاد ہئے۔ اس طرح آیات قرآنی کی اشاعت کا یہ سلسلہ روزانہ کی بنیاد پر شروع ہوا۔میر صاحب اپنی زندگی میں بڑی پاپندی کے ساتھ منتخب آیات کا ترجمہ خود اپنے قلم سے لکھ کر بھیجتے رہے مجھے یہ بھی یاد ہے کہ حنیف بلو شہید نے اس پر اعتراض بھی کیا تھا لیکن میر صاحب نے اس کے باوجود وہی ترجمہ جاری رکھا۔بعد میں پتہ چلا کہ میر صاحب اس کے ساتھ ساتھ دوسرے تراجم سے بھی مدد لیتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد میر جاوید رحمن نے اس کی ذمہ داری اپنے معاون سلیم احمد کے سپرد کی جو جنگ میں اپنی ملازمت تک انجام دیتے رہے۔ سلیم بھائی بعد میں جنگ کے نیوز ایڈیٹر، چیف نیوز ایدیٹر اور ڈپٹی ایڈیٹر کے عہدے تک پہنچے۔ آج کل وہ بول ٹی وی میں ہیں۔میرے خیال میں یہ صدقہ جاریہ ہے۔جس کا ثواب ہمیشہ میر صاحب،مفتی رفیع عثمانی سمیت سب کو ملتا رہے گا ان شا اللہ۔

جاری ہے۔

آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے عارف الحق عارف نے 1967 میں روزنامہ جنگ کراچی سے صحافت کا آغاز کیا،جہاں 2002 تک وابستہ رہے،اسی سال جیو ٹی وی سے وابستہ ہوئے جہاں بطور ڈائریکٹر 18 سال سے زائد عرصہ گزارا، عارف الحق عارف کی صحافت سے 52 سالہ وابستگی کا یہ سفر بڑا دلچسپ ہے،پاکستان 24 میں “ بڑے لوگوں کی سنہری یادیں “ کے اس تحریری سلسلے میں آپ کو نامور لوگوں کی متاثر کن کہانیاں پڑھنے کو ملیں گی۔امید ہے قارئین کے لیے یہ سلسلہ دلچسپ ہوگا۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے