کالم

بڑے لوگوں کی سنہری یادیں۔ شاہ مردان شاہ ثانی پیر پگارا ہفتم۔۸

مارچ 22, 2019 4 min

بڑے لوگوں کی سنہری یادیں۔ شاہ مردان شاہ ثانی پیر پگارا ہفتم۔۸

Reading Time: 4 minutes

پیر پگارا نے جونیجو کو ادھار دینے کی بات کو اپنی ہر پریس کانفرنس اور اخباری نمائندوں سے بات چیت کا لازمی جزو بنا لیا اور ہمیشہ خود یا کسی اخباری نمائندے کے سوال کے جواب میں اس کا ذکر ضرور کرتے۔اس کی وجہ سے یہ نام ملک بھر میں آئندہ کے وزیر اعظم کے طو پر اخبار پڑھنے والے ہر شخص کے ذہن میں آگیا۔یہاں تک کہ جنرل ضیا الحق نے ملک میں انتخابات کرانے کا فیصلہ کر لیا۔ ساری سیاسی جماعتیں یہ انتخاب جماعتی بنیادوں پر کرانا چاہتی تھیں لیکن یہ حکومت وقت کے مفاد میں نہیں تھا اس لئے اس کے تھنک ٹینکس نے مشورہ دیا کہ ملک کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر کرائے جائیں۔پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور اس کے بعد تحریک بحالی جمہوریت کی وجہ سے اس بات کا قوی امکان تھا کہ پیپلز پارٹی اکثریت حاصل کر لے۔جو مارشل لا حکومت کے خاتمے کا اعلان ہوتا۔پیپلز پارٹی کے لیڈر ایک ایک کر کے لندن جا چکے تھے اس لئے اس کی مجلس عاملہ کا اجلاس لندن میں طلب کیا گیا۔ جس کے ایجنڈے میں پاکستان کے انتخابات میں حصہ لینے یا نا لینے کا فیصلہ کرنا تھا۔ اسوقت تک حکومت کی خفیہ ایجنسیاں پیپلز پارٹی سمیت ساری جماعتوں کے صف اوّل کی قیادت میں سے بعض کو اپنے ساتھ ملا چکی تھی۔ جو ان کو پل پل کی خبریں پہنچا رہے تھے۔ پیپلز پارٹی کے یہ لیڈر حکومت کی خواہش کے مطابق 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ اب حکومت کے سامنے سب سے بڑا خطرہ ٹل گیا تھا۔ چنانچہ اس نے 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا۔ اس کی بڑی مخالفت کی گئی لیکن اس کا حکومت نے کوئی پرواہ نا کی اور فیصلہ برقرار رکھا۔

ملک میں سیاسی گہما گہمی شروع ہو گئی۔زیادہ تر بلدیاتی انتخابات میں ابھر کر سامنے آنے والے نمائندوں اور سیاسی جماعتوں کے بعض رہنماؤں نے ان انتخابات میں حصہ لیا اور پیپلز پارٹی کے بائیکاٹ سے جو سیاسی خلا پیدا ہوا اس سے ان امیدواروں کو خوب فائدہ ہوا۔ ان کی بہت بڑی تعداد ان انتخابات میں کامیاب ہوگئی۔ ان میں سے دو افراد بھی ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے۔ مسلم لیگ اور دوسری جماعتوںسے تعلق رکھنے والے امید وار بھی اپنی ذاتی حثیت میں کامیاب ہوئے تھے لیکن ان سب کو ملا کر بھی تعداد 50 سے زیادہ نہیں بنتی تھی۔ اکثریت نئے لوگوں کی تھی۔جو اپنی دولت اور خاندانی اثرورسوخ کے بل بوتے پر کامیاب ہوئے تھے۔اب وہ کسی ایسے گروہ یا پارٹی کی تلاش میں تھے جو ان کو اقتدار کے ایوانوں تک رسائی دلا سکے۔اس کے لئے پیر پگارا سب سے موزوں لیڈر تھے۔ ان کو بھی اس کا احساس تھا۔کنگری ہاؤس میں ہف وقت یہی موضوع زیر بحث رہتا تھا۔

انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد ایک دن معمول کے مطابق میں پیر صاحب سے ملنے گیا وہ ابھی ابھی دفتر آئے تھے۔ یہی معاملہ زیر غور آیا کہ کس کی حکومت قائم ہوگی۔ ضیا الحق کیا کریں گے۔ ہمیں یہ تو معلوم ہو گیا تھا کہ کامیاب ہونے والوں میں بڑا گروپ مسلم لیگ کے حامیوں ہی کاہے لیکن ان کی صحیح تعداد کا علم نہیں تھا۔ میں نے پیر صاحب سے پوچھا آپ کےکتنے مسلم لیگی،عقیدت مند یا مریدکامیاب ہوئے ہیں۔ انہوں نے میز کی دراز سے ایک فہرست نکالی اور بتایا کہ قومی اسمبلی میں ہمارے 28 افراد کامیاب ہوئے ہیں۔جو سیاسی جماعتوں میں سب سے بڑا گروپ تھا۔میں نے پیر صاحب کو مشورہ دیا کہ آپ اس تعداد کو صیغہ راز میں رکھیں اور صرف یہ بیان دیں کہ انتخابات میں ہمارے ہم خیالوں کی بڑی تعداد کامیاب ہوئی ہے اور حکومت ہم بنائیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ سیاست میں نو واردمنتخب ارکان آپ کے ساتھ شامل ہوتے جائیں گے اور آپ اکثر یاتی جماعت بن کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ جائیں گے۔پیر صاحب نے میرے مشورے کو پسند کیا اور سب سے پہلے ان کا یہی بیان بات چیت کی صورت میں جنگ کے سارے ایڈیشنز میں شائع کردیا۔کہ “ حالیہ انتخابات میں ہمارے ہم خیال اور ہم حال ہی زیادہ کامیاب ہوئے ہیں۔ وفاق میں حکومت ہم بنائیں گے “ اس بیان کا شائع ہونا تھا کہ ملک کے کونے کونے سے منتخب ارکان کی کنگری ہاؤس آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا اور وہ ایک ایک کر کے پیر پگارا سے ملاقات کرتے اور ان کی جماعت میں شامل ہوتے گئے۔ ابھی ایک ہفتہ نہیں گزرا تھا کہ پیر صاحب کی جماعت میں شامل ہونے والوں کی تعدا ایک سو سے تجاوز کر گئی تھی۔ مجھے پیر صاحب نے دفتر فون پر اس کی اطلاع دی۔ میں نے پیر صاحب کے اس بیان کی خبر فائل کی اور کنگری ہاؤس آگیا۔وہاں بڑی گہما گہمی تھی۔ پیر صاحب نے مٹھائی منگوا رکھی تھی۔ وہ اس سیاسی سنچری پر بہت خوش تھے.اور اسے اسی پس منظر میں منانا چاہتے تھے۔روز بروز شامل ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔ پیر پگارا نے حالات کو اپنے حق میں جاتے دیکھ کر اسلام آباد اور لاہور کا دورہ بھی کیا جہان نو منتخب ارکان نے پیر صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔اس طرح پنجاب کے سارے سیاسی گھرانے پیر پگارا کے گرد جمع ہو گئے۔ جنرل ضیا الحق اپنا گروپ بنا رہے تھے اور چاہتے تھے کہ ان کی مرضی کا کوئی وفادار شخص وزیر اعظم بنے۔

جاری ہے۔

آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے عارف الحق عارف نے 1967 میں روزنامہ جنگ کراچی سے صحافت کا آغاز کیا،جہاں 2002 تک وابستہ رہے،اسی سال جیو ٹی وی سے وابستہ ہوئے جہاں بطور ڈائریکٹر 18 سال سے زائد عرصہ گزارا، عارف الحق عارف کی صحافت سے 52 سالہ وابستگی کا یہ سفر بڑا دلچسپ ہے،پاکستان 24 میں “ بڑے لوگوں کی سنہری یادیں “ کے اس تحریری سلسلے میں آپ کو نامور لوگوں کی متاثر کن کہانیاں پڑھنے کو ملیں گی۔امید ہے قارئین کے لیے یہ سلسلہ دلچسپ ہوگا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے