کالم

بے چارہ شاہد مسعود

اپریل 1, 2019 4 min

بے چارہ شاہد مسعود

Reading Time: 4 minutes

ڈاکٹر شاہد مسعود کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اس میں عقل والوں کیلئے بہت نشانیاں ہیں، یہ شخص صحافی نہیں تھا چرب زبان تھا۔ چیزیں بیچنے کے فن سے واقف تھا، اس ملک کے اصل مالکان کو خوش کرنے کی اہلیت رکھتا تھا اور اسی زعم میں خود کو بہت بڑا توپ مار صحافی سمجھ بیٹھا تھا ۔ یہ شخص ٹی وی سکرینوں پر بیٹھ کر جھوٹ بولتا تھا اور اس طرح کے جھوٹ کا طومار باندھتا تھا اصل صحافی دل مسوس کر کے رہ جاتے ۔ اس کے ساتھ وہی کچھ ہوا جو قابل فروخت ہستیوں کے ساتھ ہوتا ہے ۔ڈاکٹر شاہد مسعود جب سپریم کورٹ میں ننگا ہو گیا تو فاضل ہو گیا اسکی ضرورت باقی نہ رہی ۔اس نے صحافیوں کو جو اس سے ملنے جاتے تھے بتانا شروع کیا کہ اس کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔

یہ مسلسل سب کو گمراہ کرتا رہا اور ثابت کرنے کی تگ و دو میں رہا بے گناہ ہے اور اس کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ انتقام ہے اور ایک بہت بڑی شخصیت ‘میڈیا اسی شخصیات کیلئے حساس کا لفظ استمال کرتا ہے’ اس کے خلاف ہے ،حقیقت میں اسی کوئی بات نہیں تھی یہ جھوٹا ثابت ہونے پر فالتو ہوا تھا اور اس پر مزید ہاتھ رکھنا بوجھ میں اضافہ کرنے کے برابر تھا ۔
ڈاکٹر شاہد مسعود مشرف دور میں آئے اور پھر اس قبیل کی متعدد اڑن طشتریاں آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے دور میں نجی چینلز پرنمودار ہوئیں، مسئلہ جمہوریت اور امریت کا تھا۔ جمہوریت مخالف قوتوں نے میڈیا کو خوب ہی استمال کیا جن لوگوں کو بسوں میں دانت صاف کرنے کا منجن فروخت کرنا چاہیے تھا وہ خبریں ،تبصرے اور کرپشن کی کہانیاں فروخت کرنے لگے اور میڈیا کے آسمان پر تاروں کی طرح چمکنے لگے ۔ یہ لوگ صحافی نہیں تھے بلکہ صحافت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ تھے اور ہیں۔نواز شریف کی امریکی صدر سے ملاقات ہوتی یہ ملاقات میں اپنی جادوئی طاقتوں کے ساتھ پہنچ جاتے اور انکشاف کرتے نواز شریف کو بچانے کیلئے اسرائیل سے مدد لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔کبھی بتاتے نواز شریف کی ملوں میں را کے جاسوس کام کر رہے ہیں کبھی نواز شریف کو بچانے کیلئے بھارتی حملہ کا انکشاف کرتے۔
یہ میڈیا کا تاریک دور ہے ہمارے منہہ میں خاک اگر پاکستان کو کچھ ہوا تو اسکی ایک زمہ داری پاکستانی میڈیا پر بھی عائد ہو گی جس نے اس وقت جمہوریت دشمن قوتوں کا آلہ کار بننے پر خوشی خوشی رضامندی ظاہر کی جب پاکستانی معیشت ٹیک اف کی پوزیشن میں تھی ۔
جو لوگ میڈیائی اینکرز کو پاکستان کے غیر ملکی قرضوں کے اعدادوشمار دیتے تھے وہ اب نہیں دیتے ،اینکرز اگر آلہ کار نہ بنتے نواز شریف دور میں جب انہیں قرضوں کے اعداودشمار دئے جاتے تو سوالات کرتے کہ جی ڈی پی کے تناسب سے قرضے کتنے ہیں ،قرضوں سے کتنی مشنری درامد ہوئی ہے ،سمینٹ فیکٹریوں کی پیدوار بڑھی ہے ،کتنے ترقیاتی منصوبوں پر کام کا آغاز ہوا ہے ،توانائی کے شعبہ میں کیا کچھ درامد ہوا ہے ۔کچھ اینکرز پروفیشنل بھی تھے وہ سوالات کر سکتے تھے لیکن انہوں نے نواز شریف کی کرپشن کی کہانیوں پر ہی اکتفا کر لیا اور اپنے ضمیر کو سلا کر نواز شریف اور آصف علی زرداری کی کرپشن کی کہانیاں عوام کو سنانا شروع کر دیں اور رائے عامہ کو ایک مخصوص رنگ دینے میں اپنا کردار ادا کیا ۔
میڈیا کا روپ بھرے ان لوگوں نے کبھی مولوی خادم حسین کو کسی کے کہنے پر ہیرو کا درجہ دینے میں اپنا حصہ ڈالا اور کبھی لوگوں کو ڈیل کی کہانیاں سنائیں ۔یہ لوٖگ صحافی ہیں ہی نہیں۔ یہ لوگ ملکی مفادات کا تحفظ نہیں کرتے ۔ یہ لوگ عوام کی آنکھ اور کان بھی نہیں بلکہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکے والے پیشہ ور ڈکیت یا نرم لفظوں میں جیب تراشوں ایسے ہیں۔
پاکستان نے بھارتی لڑاکا طیارہ مار گرایا اور بھارتی پائلٹ کو گرفتار کرنے کے بعد رہا کر دیا ایک نابغہ نے بھارتی فوج میں اپنے زرائع سے پورا پروگرام کر دیا کہ ابھے نندن کو بھارتی فضائیہ سے فارغ کر دیا گیا ہے ۔حقیقت میں ابھے نندن کو دوبارہ زمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں۔۔ حب الوطنی اور چیز ہے احمقانہ حرکتیں کچھ اور ہیں ۔ پروگرام کرنے والا نابغہ ملک ریاض کا پلانٹڈ پروگرام کرتے ہوئے بھی پکڑا گیا تھا ۔یہ لوگ اپنے تئیں فوج کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور تاثر دیتے ہیں ان کے تعلقات براہ راست جی ایچ کیو سے ہیں اس میں کچھ غلطیاں بعض افسران کی بھی ہیں لیکن ان لوگوں کا نہ فوج سے کوئی تعلق ہوتا تھا اور نہ ہی انہیں جھوٹ بولنے کیلئے کہا جاتا تھا یہ سب کچھ خود سے کرتے تھے ۔
کچھ لوگ اگر بعض اینکرز کو کچھ مواد دیتے تھے تو اس کا تعلق ادارے سے نہیں ہوتا تھا بلکہ انفرادی کام تھا ۔
ڈاکٹر شاہد مسعود نے صحافت کو خیرآباد کہہ کر ملک کو خیر آباد کہنے کا فیصلہ کیا ہے اور اپنے دوستوں کے زریعے خبریں اسے وقت چلوائی ہیں جب کل دو اپریل کو عدالت کرپشن کیس میں فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ سنانے جا رہی ہے۔ ۔رہائی کے بعد جو چند روز انہوں نے اپنا پروگرام کیا ہے اس سے انہیں اپنی اصل اوقات کا اندازہ ہو گیا تھا لیکن ڈرامہ کرنے سے اب بھی باز نہیں آئے اور بعض دلداروں کو جاتے جاتے بریفنگ دے گئے ہیں بہت بیمار ہو گیا ہوں اس لئے جا رہا ہوں ۔
پاکستان بدل رہا ہے اور انشااللہ پاکستان بدلے گا جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے اس میں سے خیر نکلے گی چند لوگوں کا ملکی مفاد کا نام لے کر ملک کو نقصان پہنچانے کا دور ختم ہو جائے گا اور جن لوگوں نے ملک کی معاشی تباہی میں کردار ادا کیا ہے ان سب کا حساب ہو گا اور ہونا بھی چاہیے ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے