کالم

پاکپتن میں طیارے کا تخلیق کار

اپریل 6, 2019 4 min

پاکپتن میں طیارے کا تخلیق کار

Reading Time: 4 minutes

پچھلے مہینے 22مارچ کو جب پوری قوم اگلے روز یومِ پاکستان منانے کی تیاریاں کر رہی تھی پاکپتن کا تیس سالہ نوجوان محمد فیاض اپنے ضلع میں پولیس و انتظامیہ کے بابوؤں کے دروازے کھٹکھٹا رہا تھا ۔ وہ ان سے اپنے تیار کئے گئے جہاز کی تجرباتی پرواز کے لئے اجازت کا طلبگار تھا۔ اول تو کوئی افسر اسے دستیاب ہی نہ تھا اور جو تھے بھی وہ اس کا مذاق اڑا رہے تھے۔ بھلا ایک انڈر میٹرک کس طرح ایک جہاز کا موجد ہو سکتا ہے؟ یہ باتیں محمد فیاض کے لئے تکلیف دہ ضرور تھیں مگر اس کے حوصلے جوان تھے۔

کسی افسر نے اسے اجازت نہ دی اور وہ مایوس گھر واپس لوٹ گیا۔ ہتھیار مگر پھر بھی نہ ڈالے۔ ڈالتا بھی کیوں؟ وہ گزشتہ چند برسوں سے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر ایک چھوٹا طیارہ بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔ طیارہ تیار تھا بس تجرباتی پرواز باقی تھی۔

محمد فیاض کا پسِ منظر بھی سن لیجیے۔ فیاض کا والد مقامی شوگر مل میں الیکٹریکل سپروائزر تھا۔ چھ بچے اور تنخواہ تھی صرف 7ہزار روپے۔ والد نے سب سے بڑے بیٹے محمد فیاض کو پڑھانا چاہا مگر تعلیم میں اس کا دل نہیں لگا۔ محمد فیاض کی خواہش تھی کہ وہ ائیر فورس میں جائے اس نے نصاب میں راشد منہاس کی کہانی پڑھی تھی جس کا اس پر بڑا اثر تھا۔ فیاض نے میٹرک کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا، تاہم والد سے الیکٹریکل شعبے کی کچھ بنیادی چیزیں ضرور سیکھ لیں۔ جن پر چھوٹا موٹا کام کرکے عبور بھی حاصل کر لیا۔

یہ 2007-8 کی بات ہے کہ فیاض کے والد بیمار ہو گئے۔ گھر کے معاشی حالات پہلے ہی مخدوش تھے، مزید خراب ہو گئے۔ ساری ذمہ داریاں محمد فیاض کے کاندھے پہ آن پڑیں۔ والد کے علاج اور گھریلو حالات سنبھالنے کیلئے اپنی زمین بیچ دی مگر والد بچے نہ گھریلوحالات ٹھیک ہوئے۔ وہ پہلے ہی روزی کمانے کیلئے چوکیداری کا پیشہ اختیار کر چکا تھا۔2013میں فیاض کے والد چل بسے۔ اب فیاض گھر کا بڑا تھا، تمام ذمہ داریاں اس کے ناتواں کاندھوں پر تھیں۔ اس کی شادی پہلے ہی ہو چکی تھی اور وہ چار بچوں کا باپ بھی تھا۔ مالی حالات مگر ٹھیک نہیں تھے۔2015کی بات ہے کہ فیاض نے نیشنل جیو گرافک چینل پر ہوائی جہاز بنانے کی تاریخ پر مبنی ڈاکیومنٹری دیکھی۔ اسے دیکھتے ہی فیاض کی ہوا میں اڑنے کی خواہش کسی چنگاری کی طرح بھڑک اٹھی۔ وہ ائیر فورس میں تو نہیں جا سکا تھا مگر اب اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنا جہاز خود بنا کر اڑائے گا۔ اس نے جہاز بنانے کی تاریخ سے متعلق ڈاکیومنٹری نشر مکرر میں دوبارہ دیکھی اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا شروع کر دیا۔

فیاض نے اپنی دنیا بدلنا شروع کر دی۔ اس نے پیسوں کا اضافی بندوبست کرنے کیلئے رات کو چوکیداری کے ساتھ دن کو پاپ کارن بیچنا بھی شروع کر دئیے۔ وہ ماہانہ 13ہزار روپے کماتا۔ گھر کی ضروریات پر ہاتھ کھینچتا اور کچھ نہ کچھ پیسے اپنی تخلیق کیلئے بچاتا۔ فارغ اوقات وہ جہاز بنانے میں صرف کرتا۔ 2018 تک 15ہارس پاور انجن کے ساتھ وہ ایک چھوٹا طیارہ تیار کر چکا تھا۔ فیاض نے اس طیارے کی پہلی تجرباتی پرواز اپنے گائوں 32ایس۔ پی پاکپتن میں کی۔ طیارہ آدھ گھنٹے کیلئے چار فٹ تک ہوا میں بلند ہوا اور پھر کھیتوں میں آگرا۔ اس کا تجربہ جزوی طور پر کامیاب ہو گیا تھا تاہم اس نے کچھ خامیوں اور غلطیوں کی نشاندہی کر لی اور اندازہ لگایا کہ اب اسے مزید طاقتور انجن کی ضرروت ہے۔ تجربہ کامیاب کرنے کیلئے اس کے پاس خواہش تھی مگر پیسے ختم ہو چکے تھے۔ اس نے بینک سے قرضہ لیا اور پیسے دستیاب ہوتے ہی فیصل آباد گیا جہاں موٹر بازار سے اس نے 33ہزار روپے میں 18ہارس پاور کا انجن لیا اور رواں سال فروری تک اس نے 90ہزار روپے مالیت سے نیا جہاز تیار کر لیا تھا صرف تجربہ باقی تھا۔ جب سرکاری بابوؤں نے فیاض کو تجربے کی اجازت دی نہ سول ایوی ایشن حکام تک رسائی کی رہنمائی کی تو 13مارچ کو فیاض نے ایک دوست کی ٹریکٹر ٹرالی پر اپنا طیارہ مختلف حصوں کی صورت میں رکھا اور قریبی علاقے عارف والا تجربے کیلئے پہنچ گیا۔ اس نے ٹریکٹر ٹرالی سے طیارے کے مختلف حصوں کو اتارا اور انہیں جوڑنے لگا تو کسی نے پولیس، تو کسی نے جیو نیوز عارف والا کے متحرک نمائندے انعام بٹ کو اطلاع دے دی۔ جونہی محمد فیاض نے اپنا طیارہ جوڑا پولیس موقع پر پہنچ گئی اور اسے اس تخلیقی جرم کی سزا کے طور پر طیارے سمیت تھانہ رنگ شاہی، عارف والا پہنچا دیا گیا مگر جیو نیوز کے نمائندے نے بھی اپنا کام کر دیا۔ اس نے فوری طور پر طیارے کی فوٹیج جیو نیوز لاہور بیورو بھجوائی۔ خبر نشر ہوتے ہی پاکستان سمیت دنیا بھر میں محمد فیاض کا نام اس کی تخلیق کی وجہ سے جانا جانے لگا۔ ٹی وی چینلز اس خبر کے پیچھے لپکے۔ محمد فیاض کو تھانے میں بند کر دیا گیا۔ پنجاب پولیس نے اس تخلیق کے جرم پرفیاض سے زبانی بدتمیزی کی اور تعزیرات پاکستان کی دفعات 582/682/782 کے تحت مقدمہ بھی درج کر لیا۔

اگلے روز مجسٹریٹ نے اسے 3ہزار روپے کا جرمانہ کرکے چھوڑ دیا۔ فیاض نے ایک دوست سے قرض لے کر جرمانہ ادا کیا اور رہائی پائی ۔ فیاض سے جمعرات کو بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ اب تک اس کا طیارہ پولیس کے پاس ہے۔ ظاہر ہے وہ اپنی تخلیق کو حاصل کرنے کیلئے سپرداری کی کوشش کرے گا اور ساتھ مقدمہ بھی بھگتے گا ۔

فیاض کی کہانی تخلیق اور نت نئے خیالات کے بارے میں ہمارے رویوں کی عکاسی کرتی ہے۔ ہم تخلیق کاروں اور نت نئے خیالات کے حامل لوگوں کے راستے میں روڑے اٹکاتے اور مسائل پیدا کرتے ہیں۔ ہم ایسے کرداروں کی ہمت افزائی کرکے انہیں اپنی طاقت بنانے کے بجائے ان پر مقدمات درج کرتے اوران کی تخلیقات پر قبضہ کر لیتے ہیں کہ دوبارہ کوئی تخلیق کار جنم نہ لے سکے۔

مجھے نہیں معلوم کہ فیاض کا تجربہ کامیاب ہوگا یا نہیں، لیکن مجھے یہ ضرور پتا ہے کہ فیاض سچی لگن کا ایک تخلیق کار ہے۔ ہمیں پاکستان کو آگے لیجانا ہے تو فیاض جیسے تخلیق کاروں پر مقدمات درج کرنے کے بجائے ان کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالنا ہوں گے۔ ان پر مقدمات قائم کرنے کے بجائے ان کے معاشی مسائل حل کرکے انہیں درست فورم مہیا کرنا ہوگا۔ تخلیق کا تعلق تعلیم سے نہیں لگن سے ضرور ہے۔ قومیں تخلیق کاروں کی مدد سے آگے بڑھتی ہیں، فرسودہ سوچ کی مدد سے نہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے