کالم

چین میں میرے کھانے (۱)

اپریل 6, 2019 3 min

چین میں میرے کھانے (۱)

Reading Time: 3 minutes

"چائنیز فُوڈ اِن چائنہ” خرم امتیاز کا ہلکا پھلکا سا چینی سفر نامہ ہے ۔ یہ چین کے تازہ ترین جاری سفر کی روداد ہے ۔)


پاکستان سے چین پہنچنے پر باقی کے سبھی طرح کے جھٹکے اگر برداشت کر بھی لیے جائیں تو بیک وقت حلال اور خوش ذائقہ خوراک کی عدم دستیابی کا جھٹکا سہنا مشکل ہو جاتا ہے اور اگر بندہ میری طرح کشمیری بٹ ہو تو یہ صدمہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

بنیادی طور پر چینی خوراک متوازن اور صحت بخش ہے، یہی ان چینیوں کی اچھی صحت کا اِک راز بھی ہے۔ سبزیوں کا استعمال بہت زیادہ کرتے ہیں جبکہ نمک، مرچ اور چینی کا استعمال بہت ہی کم۔ نیز اِن کے سوپ، قہوے، گرم پانی پینے کا کلچر ان کا میٹابولزم تیز رکھنے کا کام کرتے ہیں۔ ہماری طرح اوور ایٹنگ یہ کرتے نہیں- کیسا بھی مہمان ہو یہ سادہ پانی ہی سے تواضع کرتے ہیں۔ کسی کو بہت زیادہ پروٹوکول دینا مطلوب ہو تو چند پتیاں ڈال کر گرین ٹی پیش کردیتے ہیں۔ ان کا ذوق اس قدر بے ذائقہ ہے کہ یہ مبہم سے فلیوور میں بھی ذائقہ ڈھونڈ کر انجوائے کر لیتے ہیں۔ ہمارے برصغیر کے کھانے عام چینی کی زبان اور صحت دونوں کیلئے انتہائی سٹرونگ ہیں۔


دو ہفتوں میں فائیو سٹار ہوٹلز سے لے کر اوپر نیچے کے رنگ برنگے ریسٹورانٹ اور سٹریٹ فوڈ (دور دور سے) ایکسپلور کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جس معیار کا اچھا چائنیز فوڈ پاکستان میں چند ریسٹورانٹس مثلا: ‘مینڈرین کچن’ (ڈی ایچ اے) یا سیچوان (گلبرگ) میں ملتا ہے اس لیول اور ذائقے کا کھانا تو خود چین میں بھی ناپید ہے۔


کسی بھی غیر اسلامی ملک میں ہم پاکستانیوں کا سب سے بڑا مسئلہ حلال فوڈ کی دستیابی کا ہوتا ہے۔ ہم چین میں داخل ہونے سے قبل ہی ذہنی طور پر تیار تھے کہ اس غیر اسلامی ملک میں ہمیں سلاد، آلو، سبزیوں، پھلوں، روٹی، دہی اور ابلے ہوئے انڈوں وغیرہ پر ہی گزربسر کرنی ہے۔ خاکسار اسی خوف کے مارے چین میں قدم رنجہ فرمانے سے قبل ہی چپس، بسکٹس اور ڈرائی فروٹس کیساتھ اپنے لیپ ٹاپ والے بیگ کو لبالب بھر چکا تھا۔ کہ بوقتِ ایمرجنسی زہر مار کرنے سے بہتر ہوگا کہ اپنی زنبیل سے کچھ برآمد کر کے نوش کر لیا جائے۔


ہانگژو شہر میں اپنے آفس پہنچتے ہی ہمیں کام اور یکے بعد دیگرے مختلف میٹنگز میں پھنسا دیا گیا۔ اس پر افتاد یہ کہ ہمارے چینی آفس کولیگز نے حلال فوڈ نامی کسی بھی شے سے مکمل لاعلمی کا اظہار کر دیا۔ پہلے دو دن کھانے میں ہم سلاد اور بسکٹ کھا کھا کر تقریبا مخبوط الحواس ہو چکے تھے۔ تب گوگل سرچ دستیاب تھی ناں گوگل میپ۔ چائنہ کے سرچ انجنز اور میپ ہماری سمجھ سے باہر۔ کس سے پوچھیں؟ کیسے ڈھونڈیں؟ کس دیوار میں سر ٹکرائیں؟ کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔


پھر پاکستان میں دوستوں سے رابطہ کرکے اُن سے گوگل پر سرچ کروائی، جنہوں نے گوگل میپ کے ذریعے ہمارے ہوٹل کے نزدیک ایک انڈین ریسٹورانٹ "چک دے انڈیا” کا فون نمبر اور نقشہ فراہم کیا۔ لفظ ‘انڈین’ سن کر اپنا ماتھا ٹھنکا، خیر دل کو دلاسا دیا کہ آخر اِنڈینز میں مسلمان بھی تو شمار ہوتے ہیں مگرجب کال ملائی تو آگے سے ‘ہیلو! اَنیل اِز سپیکینگ’ سُن کر ارمانوں پر جیسے اَوس پڑ گئی ہو۔ البتہ انیل صاحب کے بتلائے مینو میں ہمارے مطلب کے سبھی پنجابی کھانے دستیاب تھے، ڈرتے ڈرتے ہم نے ‘حلال’ فوڈ کا پوچھ لیا۔ جواب ملا ‘جناب بے فکر ہوکر آئیے، ہمارا تمام کھانا مکمل حلال ہے’ :O ۔ ۔ لیکن ۔۔۔ لیکن ایک بھارتی ہندو پر کیونکر یقین کیا جا سکتا تھا؟ کیا خبر وہ پلوامہ حملے اور ابھی نندن کا بدلہ لینے کے چکر میں ہمیں کچھ ایسا ویسا کِھلا کر ہمارا دھرم بھرشٹ کر ڈالے 😛
سر تا پا بھوک، دل میں وسوسے، مگر ہم جاگرز پہن کر پیدل ہی تین کلومیٹر دور واقع ‘چک دے انڈیا’ ریسٹورانٹ کی طرف چل پڑے۔

  • جاری ہے
Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے