پاکستان کالم

زرداری کی پہلی پیشی پر جو دیکھا

اپریل 8, 2019 4 min

زرداری کی پہلی پیشی پر جو دیکھا

Reading Time: 4 minutes

احتساب عدالت سے
اویس یوسف زئی

سابق صدر آصف علی زرداری جعلی اکاؤنٹس کیس میں بطور ملزم فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس میں قائم احتساب عدالت میں پیش ہوئے تو میرے ذہن میں اٹھارہ سال قبل اٹک قلعہ میں قائم احتساب عدالت میں آصف زرداری کی پیشی کا منظر گھوم گیا جہاں آصف علی زرداری بیماری کے باعث اپنی چھڑی کے ساتھ عدالت کے کٹہرے میں موجود تھے اور مجھے صحافت کے طالب علم کے طور پر اپنے والد ،جنگ کے ڈسٹرکٹ رپورٹر اکبر یوسفزئی کے ہمراہ یہ تاریخی کیس کور کرنے کا موقع ملا تھا۔ میڈیا کے نمائندوں نے سماعت سے قبل آصف زرداری کو اپنا تعارف کرایا اور غیر رسمی گفتگو کا آغاز کیا مگر نواز شریف کے برعکس آصف علی زرداری میڈیا کے سوالوں کا جواب دینے میں کچھ محتاط انداز اختیار کیا اور تین سوالوں کے مختصر جواب دیے ۔

آصف علی زرداری سے جب پوچھا گیا کہ "زرداری صاحب !آپ آج اس کرسی پر بیٹھے ہیں جہاں نوازشریف بیٹھا کرتے تھے ” تو وہ بولے، میاں صاحب میاں صاحب ہیں، میں میں ہوں۔ میاں صاحب تو بڑے آدمی ہیں۔ میں چھوٹا آدمی ہوں۔ پھر پوچھا گیا فریال تالپور جس طرح یہاں بیٹھی ہیں، مریم نواز بھی یہاں اسی طرح بیٹھا کرتی تھیں، اس پر تھوڑا سنجیدہ ہوئے اور بولے آپ تو خوش ہیں ناں، پھر پوچھا گیا کہ سیاسی لیڈرشپ تو عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کر رہی ہے ۔ آپ نہیں سمجھتے کہ سابق فوجی ٖڈکیٹر پرویز مشرف کو بھی وطن واپس آ کر سنگین غداری سمیت اپنے خلاف تمام مقدمات کا سامنا کرنا چاہیے ۔ جس پر آصف علی زرداری نے کہا کہ پرویزمشرف کو عدالت میں پیش کرنے کے معاملے پر اسٹیبلشمنٹ سے پوچھیں۔

دوران سماعت سابق صدر آصف علی زرداری اور فریال تالپور سمیت 14 ملزمان احتساب عدالت میں پیش ہوئے ۔ تمام ملزمان کی حاضری لگوائی گئی ۔ حاضری شیٹ پر ملزمان نے دستخط کر کے انگوٹھے لگائے۔ آصف علی زرداری کا نام پکارا گیا تو وکلا نے ان کی نشست پر ہی حاضری شیٹ پہنچا دی جس پر انہوں نے دستخط کیے اور انگوٹھا لگایا تاہم اس اقدام پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اور فوری طور پرروسٹرم پر بلا کر باقاعدہ حاضری لگوائی ۔ آصف زرداری اور فریال تالپور کی جانب سے فاروق ایچ نائیک اور لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے وکالت نامے داخل کرائے۔

آصف علی زرداری کی احتساب عدالت پیشی کے موقع پر سیکورٹی کے غیر معمولی انتظامات سے پریشان وکلا کمرہ عدالت میں پھٹ پڑے۔ ایک وکیل نے کہا کہ وکلا کو عدالت آنے سے روکا گیا اور سیکورٹی سٹاف نے کہا کہ صرف ان کے پاس پہلے سے موجود لسٹ کے مطابق وکلا کو کمرہ عدالت جانے کی اجازت دی جائے گی ۔ عدالت آنے والے وکلا کو اس قسم کی ہراسگی کا سامنا نہیں ہونا چاہیے ۔ لطیف کھوسہ ایڈٖووکیٹ نے کہا کہ عدالت کی تعظیم کو مدنظر رکھنا ہے مگر یہاں لگتا ہے کہ عدالت محاصرے میں ہے۔ اگر وکلا کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا جائے گا تو وہ عدالت کی معاونت کیسے کریں گے؟ ایک وکیل نے کہا کہ اس کیس میں 24 سے زائد ملزمان ہیں۔ ان کے وکلا اور اسسٹنٹس آنے کے بعد کھڑے ہونے کی بھی گنجائش نہیں رہتی۔ جج احتساب عدالت نے کہا کمرہ عدالت چھوٹا ہے لیکن اس حوالے سے کوئی میکنزم بنا لیتے ہیں۔ ملزم خواجہ نمر مجید کے وکیل راجہ رضوان عباسی ایڈووکیٹ نے کہا اس عدالت میں پہلے بھی ہائی پروفائل کیس چلا ہے مگر ایسی صورتحال تو کبھی نہیں ہوئی۔ آصف زرداری کے لیڈ کونسل فاروق ایچ نائیک نے کہا اگر آصف علی زرداری کو حاضری سے استثنا دے دیں گے تو یہ صورتحال نہیں ہو گی۔ پولیس اس سیکورٹی ڈیوٹی کے بجائے کوئی اور کام کرے۔ میں ہر سماعت پر پیش ہوتا رہوں گا۔ تاہم اس حوالے سے انہوں نے کوئی باضابطہ تحریری درخواست عدالت میں جمع نہیں کروائی اور عدالت نے فی الحال اس تجویز سے اتفاق بھی نہ کیا ۔ نیب کی پراسیکیوشن ٹیم کے سربراہ سردار مظفر عباسی کافی کوشش اور تگ و دو کے بعد روسٹرم تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تو عدالت کو مخاطب کر کے کہا وکلاء صفائی نے پراسیکیوشن ڈائس پر بھی قبضہ جما رکھا ہے۔ جج احتساب عدالت نے ملزمان کے وکلا کو ایک ایک کر کے ڈائس پر آنے کی ہدائت کی ۔

دوران سماعت 2شریک ملزمان کرن اورنورین نے وعدہ معاف گواہ بننے کی استدعاکرتے ہوئے کہاکہ ہم وکیل کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتیں،گواہی دینےکو تیار ہیں جس پر دیگر ملزمان کے وکلا نے کہاکہ یہ مضحہ خیز ہے کہ ملزمان کی جانب وعدہ معاف گواہ بننے کی استدعا کی جائے ۔عدالت نے خواتین ملزمان سے کہاکہ یہ چیئرمین نیب کا اختیار ہے انہیں درخواست دیں جس پرخواتین ملزمان نے کہاکہ وعدہ معاف گواہ بننے کے لیے چیئرمین نیب کو بھی درخواست دے رکھی ہے اس پر عدالت نے کہاکہ چیک کروالیتے ہیں کہ ایسی کوئی درخواست آئی ہے یا نہیں۔

ایف آئی اے کے تفتیشی افسر محمد علی ابڑو بھی عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ نیب نے اس کیس میں معاونت کے لیے میری خدمات حاصل کی ہیں۔ جس پر ملزمان کے وکلاء نے اعتراض اٹھایا کہ یہ تفتیش نیب کی ہے ایف آئی اے کی نہیں۔ جج نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ باقی رپورٹ کب تک جمع کروا دیں گے؟ایک ترتیب بنا کر دستاویزات دوبارہ پیش کی جائیں۔ تفتیشی افسر نے کہا کہ جلد تمام دستاویزات عدالت میں پیش کر دیں گے۔ سماعت کے دوران نیب حکام کی طرف سے 30ملزمان کی فہرست عدالت پیش کی گئی۔ 14 ملزمان پیش ہوئے جبکہ 16 ملزمان عدالت نہ آئے جن میں سے 3 ملزمان ملزمان ضمانت پر تھے ۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت 16 اپریل تک ملتوی کر دی جبکہ غیر حاضر ملزمان کو 12 اپریل کو طلب کر لیا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے