کالم

ایک جمع ایک، برابر دو

اپریل 13, 2019 4 min

ایک جمع ایک، برابر دو

Reading Time: 4 minutes

زیادہ پرانی بات نہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں میمو کمشن کی سربراہی کرتے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سب کو اچھے لگتے تھے۔ انہوں نے میمو کمشن رپورٹ دی جس میں کہا گیا تھا کہ اس وقت امریکہ میں تعینات پاکستان کے سفیر حسین حقانی ملک کے وفادار نہیں تھے۔ اس رپورٹ پر اس وقت مسلم لیگ (ن) اور کچھ دیگر حلقوں نے خوب تالیاں بجائیں۔ تاہم معزز جج پیپلز پارٹی کو ضرور کھٹکنے لگے ۔ کچھ عرصہ قبل سپریم کورٹ نے یہ کیس ختم کردیا۔ 

مسلم لیگ (ن) کے آخری دورحکومت میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کوئٹہ میں ہونے والی دھشتگردی کے بعد قائم کیے گئے کمشن میں اس وقت کے طاقتور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے دھشتگردی کے تدارک کے لیے کردار پر سوالات اٹھائے۔ ان کی کالعدم جماعتوں کے رہنماوں سے ملاقاتوں پر بھی نکتہ چینی کی۔

اس دور میں چوہدری نثار کو چیلنج کرنا وزیراعظم کو چیلنج کرنے سے زیادہ مشکل کام تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے طاقتور وزیر کی پرواہ کیے بغیر اپنی رپورٹ میں انہیں تنقید کا نشانہ بنایا ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی نے چوہدری نثار جیسے طاقتور وزیر کو آڑے ہاتھوں لیا ۔ چوہدری نثار علی خان طبعیت کو ناگوارگذرنے والی ہربات پر تردید کرنے کے عارضے میں مبتلا ہیں ، کوئٹہ کمشن رپورٹ آئی تو وہ بہت تلملائے ۔  وزیرداخلہ نے سرکاری خرچ پر رپورٹ کوچیلنج کرنے کا اعلان کیا اور بعد میں سارا معاملہ دب گیا۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت البتہ قاضی فائز عیسیٰ سے ناخوش تھی۔ 

مسلم لیگ (ن) کے دورحکومت کے آخری حصے  میں جب فیض آباد کے مقام پر ایک مذہبی گروہ نے احتجاجی دھرنا دیا تو ابتدا میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس وقت کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے دھرنا ختم کرنے کا حکم دیا  اور مذاکرات کے نتیجے میں دھرنے کے اختتام پر کیے گئے معاہد ے پر سوالات بھی اٹھائے ۔ بعد میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے راولپنڈی بار سے خطاب کیا تو اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی کرکے راولپنڈی بار سے خطاب کے متنازع متن کے باعث جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو بحثیت جج ان کےعہدے سے برطرف کرنے کی سفارش کی اور صدر نے انہیں برطرف کردیا ۔ آجکل سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ۔ 

معاملہ یہیں نہیں رکا۔ فیض آباد کا دھرنا سپریم کورٹ کی نظر میں بھی آگیا ۔ جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس کیس کی سماعت کرکے اس پر ایک جامعہ اور تاریخی فیصلہ دیا۔ جس میں لوگوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ریاست کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانے کی کوشش کی گئی ۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ  کے بعض رہنماوں سمیت پڑھے لکھے افراد نے اس عدالتی فیصلے کی خوب پذیرائی کی۔خیال یہ تھا کہ معاملہ یہیں پے رک جائے گا۔ مگر گذشتہ رات جیو نیوز اسلام آبادکے نیوز روم میں ہمارے پیارے دوست آصف بشیر چوہدری نے تہلکہ خیز خبر سنائی کہ حکومت فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف  سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی ایک ایسی اپیل داخل کروا رہی جس میں عدالت عظمیٰ کے معزز جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا نام لے کر ان پر تنقید کی گئی ہے ۔

کچھ دیر میں آصف بشیر چوہدری کی خبر جیو نیوز کی شہہ سرخی تھی جسے باقی ٹی وی چینلز فالو کررہے تھے۔ حکومت کی طرف سے نظر ثانی اپیل داخل کرنے کے فیصلے میں اہم بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے یہ فیصلہ تحریک انصاف یا اس کی کسی شخصیت کےخلاف نہ تھا مگر حیران کن طور پر حکومت نے ایک معزز جج کا نام لے کر اسے اس معاملے میں گھسیٹنے کی کوشش کی ہے ۔ اس بارے میں شیخ رشید اور متحدہ قومی موومنٹ نے بھی درخواستیں سپریم کورٹ میں جمع کرادی ہیں۔ شیخ رشید اس فیصلے میں اپنے بارے میں آبزرویشنز پر معترض ہیں تو ایم کیو ایم بارہ مئی کے ذکر پر ناراض۔ 

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کوئی عام جج نہیں ہیں ۔ خدا نخواستہ اگرکوئی انہونی نہ ہوئی تو وہ سال ۲۰۲۳/۲۴ میں ۱ سال کے لیے ملک کے چیف جسٹس تعینات ہونگے۔ یہ سپریم کورٹ میں روایت سے ہٹ کر بات کرنے والے جج کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ یہ وہی جج ہیں جنہوں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثارکے دور میں بھری عدالت میں پانامہ فیصلے سمیت ان کے متعدد اقدامات پر تنقید بھی کی تھی۔ مگر یہ سوال ابھی باقی ہے کہ دھرنا کیس کا فیصلہ حکومتی جماعت کے خلاف نہیں تو حکومت کو اس معاملے پر مستقبل کے چیف جسٹس کو اس تنازعے میں گھسیٹنے کی ضرورت کیا تھی ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ کاروائی مستقبل میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سابق جسٹس شوکت عزیز صد یقی کی طرح کی ایک مثال بنانے کے عمل کا حصہ ہو؟ اگر ایسا ہے تو یہ بہت خطرناک ہوگا۔ 

تاریخی طور پر حکومتوں کے زوال کا آغاز عدلیہ یا ججز سے لڑائی کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے۔ بے نظیر بھٹو کے دواور نوازشریف کےتین ادوار اور ان کے اقتدار سے نکلنے کی کہانیوں میں عدلیہ سے لڑائی ایک اہم ترین پہلو رہی ہے۔ ۸ مارچ ۲۰۰۷ تک سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو بھی ملک میں کوئی چیلنج کرنے والا نہ تھا مگر اگلے روز اس وقت کے چیف جسٹس جسٹس افتخار محمد چوہدری سے راولپنڈی میں ان کی ایک ملاقات اور معزولی کے اعلان نے بکھری ہوئی اپوزیشن کو جوڑ دیا اور سوئے ہوئے لوگ سڑکوں پر نکل آئے ۔ 

ورلڈ بینک کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ ملک میں مہنگائی کا ایک اور طوفان آنے والا ہے ۔ اگر وزیراعظم کی طرف سے گرتی معیشت کو سہارا نہ دیا گیا تو بڑھتی مہنگائی اورسرپر کھڑی گرمیوں کی شدت کے دوران ہونے والی لوڈ شیڈنگ آئندہ چند دن میں عوام کا کباڑہ کردے گی ۔ اپوزیشن کی دو بڑئ جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی مختلف سیاسی اور مفاداتی وجوہات کی بنا پر فی الحال تو حکومت کو آڑے ہاتھوں لینے سے گریزاں ہیں۔ مگر اس سارے ماحول میں کوئی ایک چنگاری سارے ماحول کو آگ لگا دینے کی مکمل صلاحیت کی حامل ہوگی۔

اگر ایسا ہوا تو اصل کردار پھر بچ نکلیں گےمگر یہ عمل عمران خان کی حکومت کے لیے تباہی ضرور ثابت ہوگا۔ اسی ماحول میں میری اسلام آباد میں تحریک انصاف کی ایک اہم شخصیت سے تفصیلی ملاقات ہوئی تو پوچھا کیا آپ کی جماعت ۵ سال پورے کر پائے گی؟ جواب آیا، ہرگز نہیں۔ نئے انتخابات ہوں گے ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے