پاکستان24 متفرق خبریں

صرف 100 مدارس تشدد کی تعلیم دیتے ہیں

اپریل 30, 2019 3 min

صرف 100 مدارس تشدد کی تعلیم دیتے ہیں

Reading Time: 3 minutes

پاکستان کی افواج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ  دہشت گردی کے مقابلے سے فارغ ہو کر پرتشدد انتہا پسندی کا خاتمہ کرنا ہے جس کے لیے ملک کے تمام مدارس کو وزارت تعلیم کے ماتحت کر کے قومی دھارے میں لایا جائے گا ۔

راولپنڈی میں میڈیا کو نیوز بریفنگ دیتے ترجمان نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت مدراس کی تعداد 30 ہزار سے زائد ہے جن میں 25 لاکھ طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں جنھیں قومی دھارے میں شامل کیا جائے گا۔

میجر جنرل آصف غفورنے کہا کہ سنہ 1947 میں مدارس کی تعداد 247 تھی جو سنہ 1980 میں 2061 اور اب 30 ہزار سے زائد ہو گئی ہے۔

انہوں ںے کہا افغانستان کی جنگ اور ایران میں انقلاب کے بعد پراکسیز چلنا شروع ہوئیں، پاکستان میں مدراس کھول کر جہاد شروع کیا گیا، اس وقت سب ساتھ تھے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں موجود 30 ہزار مدارس میں سے صرف 100 مدارس انتہا پسندی اور تشدد کی تعلیم دیتے ہیں، 30 ہزارمدارس دہشت گردی اور عسکریت پسندی کی تعلیم نہیں دیتے۔

میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پاکستان میں اڑھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں جو دنیا میں دوسری بڑی تعداد ہے، دنیا میں تعلیم کی ترقی کے انڈیکس میں ہمارا نمبر 129 میں سے 113 ہے جو بہت شرمناک بات ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ مدارس کئی سال تک وزارت صنعت کی زیر نگرانی رہے ہیں اور اب انہیں وزارت تعلیم کے ماتحت کیا جا رہا ہے۔’ وزیراعظم نے مدارس کو قومی دھارے میں لانے کے لیے وزارت تعلیم اور وزارت داخلہ کے ساتھ مل کر ایک کمیٹی بھی قائم کی ہے۔‘

ترجمان نے بتایا کہ مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام کے ساتھ مل کر ایسا نصاب مرتب کیا جائے گا جس میں نفرت انگیز مواد نہ ہو بلکہ ایک دوسرے کے فرقے کا احترام یقینی بنایا جائے گا۔  

انہوں نے کہا کہ مدارس کو قومی دھارے میں لانے کے سلسلے میں آرمی چیف نے ہر مکتبہ فکر کے علمائے کرام کے ساتھ ملاقاتیں کی ہیں۔ ’آرمی چیف کا کہنا ہے کہ اپنا فقہ چھوڑو نہیں اور دوسرے کا فقہ چھیڑو نہیں۔‘

فوجی ترجمان نے کہا کہ تمام علما مدارس کو قومی دھارے میں لانے اور وہاں عصر حاضر کی تعلیم دینے پر متفق ہو گئے ہیں۔ 

میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ وزارت تعلیم مدارس کے نصاب میں عصر حاضر کی تعلیم شامل کرے گی اور انہیں تعلیمی بورڈز اور اعلی تعلیمی کمیشن کے ساتھ منسلک کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ مدارس کو قومی دھارے میں لانے کے لئے قانون سازی ضروری ہے، اس مقصد کے لئے ڈیڑھ ماہ میں ایک بل تیار ہو جائے گا۔ ’دوسرے مرحلے میں مدارس کے مالیاتی امور، نصاب کا جائزہ اور اساتذہ کا تقرر کیا جائے گا۔ تیسرے مرحلے میں مدارس کو مجموعی طور پر قومی دھارے میں لایا جائے گا۔‘

فوجی ترجمان نے کہا کہ 70 فیصد مدارس میں ایک طالب علم پر ایک ہزار روپے ماہانہ خرچ کیے جاتے ہیں، 25 فیصد مدارس ایک طالب علم پر تین سے پانچ ہزار روپے جبکہ پانچ فیصد مدارس میں ایک طالب علم پر ماہانہ 15 سے 20 ہزار روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔

میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ پاکستانی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ میں امریکی اور دیگرغیر ملکی طلبہ بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مدرسے کے ایک طالب علم نے پاک فوج میں کمیشن بھی حاصل کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مدراس سے فارغ التحصیل طلبہ کے لیے ملازمتوں کے مواقع بہت کم ہوتے ہیں۔ ’یہ طلبہ بھی ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلا،جج، صحافی اور فوجی بن سکتے ہیں اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ان طلبہ کو درس نظامی کے ساتھ عصر حاضر کی تعلیم دی جائے۔‘

پاکستانی فوج کے ترجمان کے مطابق  مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے ابتدائی طور پر دو ارب روپے اور اس کے بعد ہر سال ایک ارب روپے درکار ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ رقم ریاست فراہم کرے گی۔

خیال رہے کہ پاکستان میں سنہ 2014 میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت مدارس کو قومی دھارے میں لانے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اس سلسلے میں وزارت داخلہ نے مدارس کی تمام تنظیموں سے مذاکرات شروع کئے تھے۔

حال ہی میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی سفارشات کے تحت پاکستان نے مدارس میں اصلاحات کے عمل کو تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حکومت نے کالعدم تنظیموں کے خلاف مہم کے تحت 182 مدارس کو قومی تحویل میں لیا جبکہ 100 سے زائد افراد کو نظر بند کیا گیا۔

ابتدا میں مدارس نے اس عمل پر تحفظات کا اظہار کیا تاہم بعد میں کچھ شرائط کے تحت یہ تنظیمیں مدارس کو قومی دھارے میں لانے پر تیار ہو گئیں۔

مدرسہ اصلاحات کے تحت حکومت نے مدارس کو اس بات کا پابند بنایا تھا کہ وہ یہ یہ ضمانت دیں کہ ان کا مدرسہ کسی قسم کی دہشت گردی، انتہا پسندی، فرقہ واریت یا ملک دشمنی میں ملوث نہیں ہو گا اور نہ ہی ایسی کوئی تعلیم دے گا۔

مدارس کو اپنے ذرائع آمدن بتانے کے علاوہ آڈٹ بھی کرانا ہو گا۔


مدارس کی تنظیموں کا ماضی میں یہ موقف رہا ہے کہ حکومت اصلاحات میں سنجیدہ نہیں، مدارس کی رجسٹریشن کا عمل وزارت تعلیم کو دیا جانا چاہیے نہ کہ وزارت مذہبی امور کو۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے