کالم

سابق جج اور اہلیہ کا مقدمہ

مئی 3, 2019 2 min

سابق جج اور اہلیہ کا مقدمہ

Reading Time: 2 minutes

رپورٹ: خالدہ شاہین رانا
سپریم کورٹ نے نو سالہ معصوم، گھریلو ملازمہ طیبہ کو تشدد کا نشانہ بنانے اور جلانے کے جرم میں اڈیالہ جیل راولپنڈی میں تین تین سال قید بھگتنے والے میاں بیوی (ملزم وسابق ایڈیشنل اینڈ سیشن جج اسلام آباد راجہ خرم علی خان ا ور ملزمہ ماہین ظفر ) کی سزا کی معطلی سے متعلق اپیلوں کی مزید سماعت سوموار6مئی تک ملتوی کر دی ہے جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے ہیں کہ کیس کا ریکارڈ عدالت میں آچکا ہے اس لئے اب سزا معطل نہیں کی جائے گی بلکہ شواہد کی روشنی میں سزا یا ختم ہوگی یا برقرار رہے گی ۔

جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود پر مشتمل تین رکنی بنچ نے ملزمان کی اپیلوں کی سماعت کی ۔

ملزمہ ماہین ظفر کے وکیل راجہ محمد فاروق نے موقف اختیار کیا کہ ان کی موکلہ کئی ماہ سے جیل میں بند ہے جبکہ ملزم خرم علی بھی 11 جون سے جیل میں قید ہیں۔

ملزم راجہ خرم علی خان کے وکیل رضوان عباسی نے موقف اختیار کیا کہ طیبہ کے جسم پر آنے والے زخم حادثاتی تھے۔

انہوں نے کہاکہ وہ بچی ماچس کی تیلیوں سے خود ہی جلی تھی ،جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اسے تو پولیس ہسپتال لے کر گئی تھی، اگر گھر میں کوئی جل جائے تو کیا پولیس کے آنے کا انتظار کیا جاتا ہے یا مضروب کو ہسپتال پہنچایا جاتا ہے۔

فاضل وکیل نے کہاکہ پہلے میرا موکل ہی اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا تھا بعد میں پولیس اسے ہسپتال لے کرگئی تھی جس پر جسٹس قاضی فائز نے ان سے ڈاکٹر کا نام پوچھا تو انہوں کہاکہ اس کا تو ریکارڈ میں کہیں ذکر ہی نہیں ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فاضل وکیل سے استفسار کیا کہ کیا طیبہ کے تمام 22 زخم ہی حادثاتی تھے؟ جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ طیبہ نے جرح میں تسلیم کیا ہے کہ اسے ملزمان نے کوئی زخم نہیں لگایا ۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ طیبہ کے والدین بہت غریب ہیں، ملزمان اپنی حیثیت کی بناء پر شواہد تبدیل کرنے کے قابل تھے۔

انہوں نے کہاکہ غریب لوگوں پر دبائو بھی ڈالا جا سکتا ہے اور پیسے بھی دیے جا سکتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ زخم حادثاتی تھا یا ارادی میڈیکل رپورٹ سے ثابت نہیں ہوتا ہے۔

ابھی ملزمان کے وکیلوں کے دلائل جاری تھے کہ وقت کی کمی کے پیش نظر کیس کی مزید سماعت سوموار6مئی تک ملتوی کر دی گئی ۔

یاد رہے کہ مرکزی ملزم راجہ خرم کے جج ہونے کی بناء پر اس کیس کا ٹرائل سیشن کورٹ کی بجائے ہائی کورٹ کی سطح پر کیا گیا ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل بنچ نے دونوں ملزمان کو ایک ایک سال قید اور پچاس پچاس ہزار روپے جرمانہ کی سزائیں سنائی تھیں ۔

جن کے خلاف اپیل پر ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے ان کی سزائوں میں اضافہ کرتے ہوئے تین تین سال قید اور پچاس پچاس ہزار روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم جاری کیا تھا جس کے خلاف ملزمان نے سپریم کورٹ میں یہ اپیلیں دائر کر رکھی ہیں۔


Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے