کالم

دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو

مئی 9, 2019 4 min

دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو

Reading Time: 4 minutes

ان دنوں فلم اداکار اکشے کمار سوشل میڈیا کے ٹرولز کے نشانے پر ہیں۔ اکشے کمار کے لیے سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا۔ فلمیں ٹھیک ٹھاک مل رہی تھیں اور ٹھیک ٹھاک بزنس بھی کررہی تھیں ۔ پھر وہ دن آگیا جب وہ ایک ‘غیر سیاسی’ انٹرویو لینے کیلئے دہلی پہنچ گئے ۔

شاید وہ اکشے کمار کی خطا تھی جس کے بعد ’ریل لائف‘ سے لوگوں کو ہنسانے والا ریئل لائف سے بھی دن بھر کے تھکے ماندے اذہان کو قہقہہ بردوش کرنے لگا ۔ انٹرویوز بہت سے ہوئے لیکن کسی انٹرویو کا اتنا مذاق نہیں بنا جتنا اس غیر سیاسی انٹرویو کا بن گیا ۔

اس کی ایک وجہ یہ نظر آتی ہے کہ جب ملک بھر میں سیاسی پارہ انتہائی شباب پر ہو ایسے میں ملک کی سب سے قد آور سیاسی شخصیت کے غیر سیاسی انٹرویو کے آئیڈیا نے عوام کو مسکرانے پر مجبور کر دیا۔ چونکہ انٹرویو غیر سیاسی تھا اس لیے میزبان کے انتخاب میں فن کی دنیا کی جانب نگہ انتخاب گئی اور قرعہ فال اکشے کمار کے نام کا کھلا ۔

یہاں ایک معمولی سی لغزش نے آگے چل کر بہت لطیف صورتحال پیدا کردی۔ وہ لغزش یہ تھی کہ اکشے کمار فلمی پردے اور ٹوئٹر پر جتنے شدید ‘نیشنلسٹ’ نظر آتے ہیں حقیقت میں وہ کینیڈین پاسپورٹ رکھتے ہیں اور ہندوستانی انتخابی عمل میں ووٹ دینے کا حق بھی نہیں رکھتے۔ یوں غیر سیاسی انٹرویو کے لیے فن کی دنیا سے کیا جانے والا انتخاب حقیقت میں فن (Fun) کی دنیا کا انتخاب بن گیا۔

انٹرویو نشر ہوا اور مذاق بننا شروع ہوگیا ۔ ستم ظریف ستیش اچاریہ نے کارٹون بنایا جس میں اکشے کمار اپنی کامیڈی فلم کے معاون اداکار بابو بھیا اور غیر سیاسی انٹرویو کے مہمان کے ساتھ نظر آرہے ہیں اور بابو شکوہ کر رہے ہیں کہ راجو (اکشے کمار) نے ان کے بغیر ہی ہیرا پھیری شروع کردی ۔ اور بھی بہت سارے کارٹونسٹ نے کارٹون بنائے لیکن سب سے زیادہ مقبولیت ستیش کے کارٹون کو ہی حاصل ہوئی۔ 


بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی۔ غیر سیاسی انٹرویو کے کچھ ہی دنوں بعد عروس البلاد میں لوک سبھا الیکشن کیلئے ووٹنگ ہوئی۔ فلمی ستاروں کا تعلق کہیں سے بھی ہو لیکن ایک بار مقبولیت حاصل کرنے کے بعد ممبئی ہی ان کا گھر بن جاتا ہے اور وہ یہیں ووٹ بھی ڈالتے ہیں بشرطیکہ پاسپورٹ انڈین رکھتے ہوں۔

معروف ستارے رہائش کیلئے باندرہ اور جوہو جیسے علاقوں کو پسند کرتے ہیں اس لیے کسی بھی انتخابی عمل میں ووٹنگ کیلئے انہیں پولنگ بوتھ کا رخ کرنا پڑتا ہے جہاں مختلف میڈیا ہاؤسیز کے فوٹو گرافرس اپنا اور اپنے کیمروں کا پیٹ بھرنے کیلئے گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ چنانچہ 29 اپریل کو سارا بالی ووڈ کیمروں کی زد پہ آگیا لیکن تلاش کرنے پر بھی اکشے کمار نہیں مل سکے۔ چونکہ غیر سیاسی انٹرویو کے بعد سے اکشے کمار سیاسی خبروں میں تھے اس لیے پولنگ بوتھ پر ان کی غیر موجودگی سے بہت سوں کو حیرت ہوئی۔

چھان بین کے بعد حیدر علی آتش والی صورتحال پیدا ہوئی جنہوں نے پہلو میں دل کا شور سن کر سینہ چیر ڈالا اور ایک قطرہ خوں کو ترستے پھرے۔ معلوم ہوا کہ اکشے کمار بھارتی انتخابی عمل میں ووٹ نہیں دے سکتے کیونکہ بنیادی طور پر وہ کینیڈین شہری ہیں۔ پھر مذاق در مذاق کی صورتحال پیدا ہوگئی۔ کسی ایونٹ میں ووٹ نہ دینے کے سوال پر اکشے کمار کنی کاٹتے ہوئے نظر آئے۔ پھر قہقہے بلند ہوئے اور یہ نکتہ واضح ہوا کہ سوشل میڈیا یوزرس غم اور غصے کی بہ نسبت خوشی اور شرارت کے موڈ میں زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔

اڑیسہ میں طوفان آیا، اکشے کمار نے ایک کروڑ روپئے کی امداد دے کر اپنے ہندوستانی ہونے کا ثبوت دینے کی کوشش کی جس پر سوشل میڈیا یوزرس اکشے کمار کو ‘لو فرام انڈیا’ کہنے کے ساتھ ہند – کینیڈا تعلقات میں مضبوطی کی نیک خواہشات پیش کرنے لگے۔ 

انٹرویو کے بعد بنائے جانے والے کارٹونز ۔ کریڈٹ ستیش اچاریہ


اب سنجیدگی سے غور کریں کہ یہ سب کیوں ہورہا ہے۔ ہندوستانی انتخابی عمل میں حصہ نہ لینے والے اکشے کمار واحد فلمی اداکار نہیں ہیں۔ کترینہ کیف بنیادی طور پر برطانوی شہری ہیں اور جیکلین فرنانڈیز سری لنکن ہیں۔ انہیں کیوں تنقید کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔ سری لنکا میں دہشت گردانہ واردات کے بعد جیکلین نے پبلک فورم پر اپنے سری لنکن ہونے کا ثبوت دیا تو انہیں سری لنکا واپس چلے جانے کا مشورہ کیوں نہیں دیا گیا۔ برطانوی لہجے میں ہندی بولنے والی کترینہ کیف کو کیوں برطانیہ نہیں بھیجا جاتا۔ اس کی سیدھی اور صاف وجہ یہی ہے کہ یہ تمام آرٹ کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں اور ہر وقت موقع بے موقع حب الوطنی کے ڈھول نہیں پیٹتیں اور نہ ہی سیاسی مقاصد کیلئے برپا کی جانے والی ‘غیر سیاسی’ تقاریب میں شرکت کرتی ہیں۔

اکشے کمار کے ہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ پردے پر یہ دھرم کے خانے میں انڈین لکھتے ہیں اور ریئل لائف میں پاسپورٹ کینڈین رکھتے ہیں۔ پردھان منتری کی جانب سے شروع کی گئی ‘بھارت کے ویر’ مہم کیلئے چندہ کرتے ہیں اور اپنی فلمیں ان کے نام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر وہ کوشش کرتے ہیں جس سے وہ اس طبقہ کے منظور نظر رہ سکیں جسے شہداء کے نام پر ووٹ مانگنے میں بھی شرم نہیں آتی۔

کینیڈین پاسپورٹ رکھنے کے بعد بھی اس ملک سے انہیں محبت ملی، وہ اولین صف کے اداکاروں میں پہنچے، سو کروڑ کا بزنس کرنے والی جتنی فلمیں اکشے کمار کے کھاتے میں ہیں اتنی کسی اور اسٹار کے کھاتے میں نہیں ہیں۔ اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ فن اور آرٹ کی سرحدیں نہیں ہوتیں۔ آرٹسٹ اکشے کمار نے جب نیشلسٹ بننے کی کوشش کی تو رسوائی ان کا مقدر بن گئی۔

خان برادران اگر اکشے کمار کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں تو اکشے کے خلاف اٹھا غوغا جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گا لیکن وہ کیوں اکشے کمار کی حمایت میں آگے آئیں۔ جب خان برادران کو پاکستان جانے کے مشورے دیے گئے تھے کیا اس وقت اکشے کمار ان کی حمایت میں آگے آئے تھے؟

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے