پاکستان

’قومی حکومت یا قبل از وقت الیکشن‘

Reading Time: 4 minutes اسلام آباد کے زرداری ہاؤس میں ڈنر کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے عید کے بعد حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لیے مولانا فضل الرحمان کی صدارت میں کل جماعتی کانفرنس بلانے پر اتفاق کیا ہے ۔

مئی 19, 2019 4 min

’قومی حکومت یا قبل از وقت الیکشن‘

Reading Time: 4 minutes

احمد عدیل سرفراز / صحافی @adelzown

پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے ملک کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک افطار ڈنر کے دوران سیاسی اکٹھ کیا ہے جس کے اختتام پر ایک اور کل جماعتی کانفرنس میں عید کے بعد اکھٹا ہونے پر اتفاق کیا ہے جس میں حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے طریقہ کار پر مشاورت ہوگی ۔

قومی اسبملی میں اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی دعوت پر ملک کی اکثر چھوٹی بڑی جماعتوں کے رہنماؤں نے افطار ڈنر میں شرکت کر کے تیل و گیس کے ذخائر میں ناکامی سے مایوسی تحریک انصاف کی حکومت کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی ہے ۔

شہر کے پوش سیکٹر ایف ایٹ میں واقع زرداری ہاؤس میں شام سات بجے شروع ہونے والے افطار ڈنر نے رات گئے تک سیاسی اجتماع کی شکل اختیار کیے رکھی ۔

مسلم لیگ ن کے تاحیات قائد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز پہلی بار اپوزیشن جماعتوں کے بڑے رہنماؤں کے درمیان دیکھی گئیں اس لیے ہر ایک کی خصوصی توجہ کا مرکز رہیں ۔ زرداری ہاؤس تک ان کو لانے کے لیے کالی مرسڈیز کار ان کے کزن اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز ڈرائیور کرتے رہے ۔

دروازے پر بلاول بھٹو زرداری نے مریم نواز کا استقبال کیا اور خیر مقدمی جملے کہے ۔ اس موقع پر سامنے آںے والی ایک ویڈیو میں مریم نواز اپنے چچا زاد بھائی حمزہ شہباز کی کمر پر ہاتھ رکھ کر ان کو ’تقریبا‘ دھکیلتے ہوئے بلاول زرداری سے معانقے کے لیے آگے بڑھا رہی ہیں ۔ میڈیا کے نمائندوں کو زرداری ہاؤس کے باہر رک کر ہی پریس کانفرنس کا انتظار کرنا تھا مگر افطار کے لیے سجائی گئی میز کے گرد بیٹھے رہنماؤں کی موبائل فوٹیج اندر سے برابر فراہم کی جاتی رہیں ۔ ایسی ہی ایک ویڈیو میں پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید پوچھ رہے کہ اپوزیشن قومی حکومت کا قیام چاہتی ہے یا پھر قبل از وقت نئے انتخابات کی طرف جانا ہے؟ ۔

افطار ڈنر میں مسلم لیگ ن کے وفد نے شرکت کی جس میں کئی اہم رہنما شامل تھے۔ شاہد خاقان عباسی اور پرویز رشید نمایاں لوگوں میں سے تھے ۔

مولانا فضل الرحمان تاخیر سے آئے مگر ہمیشہ کی طرح بھاری بھر کم ہی رہے اور میڈیا کی توجہ حاصل کی ۔

اسفندیار ولی، سراج الحق اور اختر مینگل نے اپنے نمائندے بھیجے ۔ آفتاب احمد خان شیرپاؤ بھی افطار ڈنر میں شامل ہوئے۔

قبائلی علاقوں سے ارکان قومی اسمبلی علی وزیر اور محسن داوڑ ٹی وی پر نظر نہیں آتے یا دکھائے نہیں جاتے مگر زرداری ہاؤس آتے ہوئے رپورٹرز نے ان کی ویڈیو آگے بڑھ کر بنائی ۔ اجلاس میں مختلف سیاسی جماعتوں نے الگ الگ تجاویز دیں ۔

مولانا فضل الرحمان پہلے دن کی طرح اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے کہ عمران خان کی حکومت زبردستی مسلط کی گئی ہے اور فوری طور پر سڑکوں پر نکل کر اس کے خاتمے کے لیے تحریک شروع کی جائے ۔

ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا وفد ایک ساتھ

میزبان پیپلزپارٹی کے بارے میں جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ وہ نیب کی کارروائیوں سے پریشان ہے اور یہ سیاسی اکٹھ بھی اسی سلسلے میں اپنا وزن بڑھانے اور قوت دکھانے کے لیے رکھا گیا ۔ پارٹی کے رہنماؤں نے قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جاوید اقبال کے خلاف سخت مؤقف اختیار کیا اور ان کو عدالتوں میں چیلنج کرنے سمیت مختلف آپشن دیگر جماعتوں کے رہنماؤں کے سامنے رکھے ۔

افطار ڈنر کے بعد پریس کانفرنس میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اعلان کیا کہ عید کے بعد مولانا فضل الرحمان کی صدارت میں کل جماعتی کانفرنس ہوگی ۔ انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس میں پاکستان کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔

میر حاصل بزنجو نے کہا کہ گری ہوئی حکومت کو اور گرانے کی ضرورت نہیں ۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں 60 فیصد اپوزیشن ہے اگر آج مستعفی ہو جائیں تو حکومت ختم ہو جائے گی ۔ ’کل جماعتی کانفرنس کا یہ مطلب نہیں کہ آئے اور بیٹھ کر چلے گئے بلکہ یہ نئے اپوزیشن الائنس کو جنم دے گا۔‘

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اپوزیشن میں اتفاق ہے کہ حکومت ناکام ہو چکی ہے۔ ’جب پارلیمان میں زبان بندی ہوگی تو بات سڑکوں تک ہی آئے گی۔‘

میاں افتخار حسین نے کہا کہ ایک فرد کی خاطر اسٹیبلشمنٹ نے یہ سارا کھیل کھیلا اور تمام سیاسی جماعتوں کو دیوار کے ساتھ لگا دیا ۔

آفتاب شیر پاؤ نے کہا کہ حکومت نے ملک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا ہے ۔ ’حکومت ناکام ہو گئی ہے ان حالات میں اپوزیشن خاموش نہیں بیٹھ بیٹھ سکتی ۔‘بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ آئین میں سب کچھ واضح درج ہے اور اسی پر عمل کرانا ہے ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے