پاکستان24 متفرق خبریں

’موت کے چار سال بعد کرپشن الزام سے بری‘

Reading Time: 2 minutes ملزم نے سات سال قید کاٹ لی اور جیل میں ہی فوت ہو گیا مگر سپریم کورٹ نے موت کے چار سال بعد باعزت بری کرتے ہوئے سزا ختم کر دی

مئی 21, 2019 2 min

’موت کے چار سال بعد کرپشن الزام سے بری‘

Reading Time: 2 minutes

پاکستان کی سپریم کورٹ نے ایک شخص کو اس کے مرنے کے چار سال بعد کرپشن کے مقدمے سے بری کیا ہے ۔

پیر کو سنائے گئے اس فیصلے نے ملک کی عدالتوں میں احتساب عدالتوں کے حکم ناموں کے خلاف تاخیر سے سنی جانے والی اپیلوں اور نظام اںصاف میں موجود خامیوں کو بے نقاب کیا ہے ۔

نیب کے چیئرمین نے سنہ 2001 میں کرنل ریٹائرڈ افتخار احمد اعوان کے خلاف سروسز کوآپریٹو کریڈٹ کارپوریشن لمیٹڈ میں مبینہ بے ضابطگیوں پر ریفرنس دائر کیا ۔

سنہ 2002 میں ملزم پر فرد جرم عائد کیے جانے کے بعد احتساب عدالتوں نے ٹرائل مکمل کر کے جرم ثابت ہونے پر 14 سال قید اور 25 کروڑ آٹھ لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی ۔ عدالت نے افتخار اعوان کو پانچ کروڑ مزید جرمانے کی بھی سزا سنائی ۔

کرنل اعوان کے بھائی ذوالفقار اعوان نے اس فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا جس پر 20 مئی سنہ 2005 کو عدالت نے جرمانے کی سزا برقرار رکھی تاہم سزا کم کر کے پانچ برس کر دی ۔ لاہور ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی جس نے سنہ 2009 میں اس کو سماعت کے لیے منظور کیا ۔

کرنل اعوان 22 اپریل 2015 کو جیل میں سات برس قید کاٹنے کے بعد انتقال کر گئے جبکہ ان کی اپیل سپریم کورٹ میں زیر التوا تھی ۔ صحافی حسنات ملک کی انگریزی روزنامے ایکسپریس ٹریبیون کی ایک رپورٹ کے مطابق متوفی کرنل اعوان کے ورثا نے مجرمانہ داغ ہٹانے کے لیے سپریم کورٹ سے اپیل پر سماعت کر کے فیصلے دینے کی استدعا کی ۔

ورثا نے عدالت عظمی میں مؤقف اختیار کیا کہ متوفی کرنل اعوان انتہائی دیانتدار انسان تھے اور انہوں نے ایس سی سی ایل میں ہونے والی کسی بے ضابطگی کا حصہ نہیں تھے ۔

سپریم کورٹ نے ورثا کی جانب سے دائر کی گئی درخواست کو 21 ستمبر 2017 کو سماعت کے لیے منظور کیا ۔

پیر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی جہاں کرنل اعوان کے ورثا کے وکیل اکرم شیخ نے عدالت کو بتایا کہ یہ نیب کی کھلی بدمعاشی کا کلاسیک مقدمہ ہے جس میں احتساب کے ادارہ نظام انصاف میں غیر آئینی مداخلت کی ۔

احتساب عدالت میں نیب نے ملزم کے خلاف ریفرنس میں پلندے پیش کیے گئے مگر ثبوت کے طور پر ایک کاغذ کا ٹکڑا تک سامنے نہ لایا گیا ۔ وکیل کا کہنا تھا کہ نیب پاکستان کا پہلا فوجی تفتیشی ادارہ ہے جس نے جنرل پرویز مشرف کے دماغ میں جنم لیا ۔

انہوں نے کہا کہ یہ مقدمہ اس وقت بنا جب نیب کو راولپنڈی کا ٹین کور نگرانی میں رکھتا تھا ۔ اکرم شیخ نے کہا کہ اگر استغاثہ اس مقدمے میں ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا کاغذ کے ایک ٹکڑے کی بھی نشاندہی کر دے تو وہ اپنی درخواست واپس لے لیں گے ۔

عدالت کی ہدایت پر نیب کے پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ نے مقدمے میں 45 منٹ تک دلائل دیے مگر عدالت کو مطمئن نہ کر پائے ۔

عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے متوفی کرنل افتخار احمد اعوان کو موت کے چار سال بعد کرپشن کے تمام الزامات سے بری کر دیا اور ان پر عائد کیا گیا جرمانہ بھی ختم کرنے کا حکم سنایا ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے