پاکستان پاکستان24

’صحافی پر حملے میں ملوث عناصر کی نشاندہی ہوگئی‘

Reading Time: 7 minutes پاکستان میں صحافی تنظیموں نے پہلی بار اپنے ایک ساتھی پر حملے کی تفتیش خود کرنے کی کوشش کی اور نتائج تک پہنچ گئے مگر پھر رپورٹ شائع نہ ہو سکی کیوں؟

مئی 22, 2019 7 min

’صحافی پر حملے میں ملوث عناصر کی نشاندہی ہوگئی‘

Reading Time: 7 minutes

عابد خورشید ۔ ایڈیٹر رپورٹنگ @Sardarabidk

پاکستان میں صحافیوں پر حملوں اور سنسرشپ کے غلغلے کے دوران ایک ایسی رپورٹ کا ہر کسی کو انتظار تھا جس کے لیے ملک میں صحافتی تنظیموں کے رہنماؤں نے بلند بانگ دعوے کر کے ’فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی‘ تشکیل دی تھی۔

خیال رہے کہ اسلام آباد میں صحافی مطیع اللہ جان پر حملے کے بعد ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی 25 ستمبر 2017 کو تشکیل دی گئی ۔ کمیٹی کی تشکیل کا نوٹیفکیشن راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس کے صدر مبارک زیب خان نے جاری کیا تھا۔

فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں منعقدہ ایک اجلاس میں کیا گیا۔ اس اجلاس میں دیگر سینئر صحافیوں کے علاوہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ اور نیشنل پریس کلب کے صدر شکیل انجم بھی موجود تھے۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے رہنماؤں نے مطیع اللہ جان پر حملے کو ٹیسٹ کیس بناتے ہوئے راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس کی سطح پر سینئر صحافی حامد میر کی سربراہی میں فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی ۔

پانچ رکنی کمیٹی کے دیگر ممبران میں ڈان اخبار کے قلب علی، جیو نیوز کے اعزاز سید اور 24 نیوز کے صغیر چودھری کے ساتھ وقت نیوز کے سردار حمید شامل تھے تاہم سردار حمید نے کمیٹی کے کسی ایک بھی اجلاس میں شرکت نہ کی۔

نوٹیفکیشن کے مطابق کمیٹی کا ٹاسک مطیع اللہ جان کا حملے کے حوالے سے بیان ریکارڈ کرنا، حملے کی جگہ کا دورہ اور مقامی پولیس سے اس کیس کی پیش رفت پر رابطہ رکھ کر اپنی رپورٹ پانچ دن میں مکمل کرنا تھا۔

کمیٹی نے اپنی تحقیق مکمل کے لیے آر آئی یو جے کے صدر سے متعدد بار مدت میں توسیع کی درخواست کی تا کہ جامع اور تفصیلی حقائق سامنے لائے جا سکیں۔ رپورٹ کے مطابق اس کام پر تقریبا تین ماہ صرف ہوئے۔

فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ ڈیڑھ سال گزرنے کے بعد بھی پبلک نہیں کی گئی ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور اپنے ذرائع حاصل کی گئی رپورٹ کو اس ایکسلیوزیو خبر کے ذریعے سامنے لا رہا ہے۔

فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے سربراہ حامد میر نے پاکستان ٹوئنٹی فور سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک برس قبل رپورٹ مکمل کر کے اس وقت کے آر آئی یو جے کے صدر مبارک زیب خان کے حوالے کر چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’میں نے کمیٹی کے دیگر ارکان کے ساتھ پریس کلب جا کر رپورٹ مبارک زیب خان کے حوالے کی تھی۔‘

رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ مطیع اللہ جان پر حملے کی تحقیق مکمل کرنے میں اس لیے تاخیر ہوئی کہ ’اس دوران کئی دیگر واقعات بھی سامنے آئے۔ صحافی ارشد شریف کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کی گئی جس پر ایک اور فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ پہلی کمیٹی کے تین ارکان کو دوسری کمیٹی میں بھی شامل کیا گیا۔‘

رپورٹ کے مطابق اس دوران حامد میر کے خلاف بھی ایک ایف آئی آر درج کی گئی ۔ ’یہ ایف آئی آر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی کے حکم پر سات سال قبل ہونے والے اغواء کے مقدمے میں درج کی گئی۔ اس ایف آئی آر کو عدالتوں سے ختم کرنے میں دو ماہ کا وقت لگ گیا۔‘

’یہ وہ تمام وجوہات تھیں جن کی وجہ سے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ مکمل کرنے میں تاخیر ہوئی۔‘

رپورٹ کے مطابق فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی ارکان سے کام کے دوران بہت سے سرکاری حکام نے پوچھا کہ صحافی تنظیم تفتیشی ایجنسی کا کردار کیوں ادا کر رہی ہے۔ ’یہ ایک اہم سوال تھا جس پر 25 ستمبر کے اجلاس میں بھی بحث کی گئی تھی۔‘

رپورٹ کہتی ہے کہ ’صحافی مطیع اللہ جان پر حملے کے بعد احتجاجی مظاہروں کے دوران مقررین نے کہا تھا کہ صحافیوں پر حملے کے خلاف صرف مظاہرے کرنا بے معنی ہو چکا ہے۔ حکومت اور اس کے متعلقہ ادارے حملوں کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہیں ۔‘

اجلاس میں سینئر صحافیوں نے تجویز دی تھی کہ ہمیں اپنے ساتھیوں پر حملوں کی خود تفتیش کرنی چاہیے تاکہ معلوم ہو سکے میڈیا کو ڈرانے کی کوششوں کے پیچھے کون ہے۔ ’مطیع اللہ جان پر حملہ دن کی روشنی میں کیا گیا تھا جبکہ ان کے ساتھ گاڑی میں بچے بھی موجود تھے۔ حملہ آور موٹر سائیکل سواروں کی جانب سے چلتی گاڑی پر پھینکے گئے پتھر سے یہ واضح تھا کہ مقصد ان کو خوفزدہ کرنا اور پیغام دینا تھا۔‘

رپورٹ کے مطابق ماضی میں بھی کئی صحافیوں پر ایسے ہی حملے ہوئے جو پولیس کو رپورٹ نہیں کیے گئے۔ کمیٹی نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا۔ ’مقامی لوگوں سے بات کی جن میں ایک ریٹائرڈ فوجی افسر کی بیگم بھی شامل تھیں جنہوں نے کمیٹی ارکان کے ساتھ سیلفیاں بھی بنائیں۔‘

کمیٹی نے مطیع اللہ جان کا بیان ریکارڈ کرنے کے بعد تفتیش کرنے والے کئی پولیس افسران سے گفتگو کی۔ کمیٹی نے حملے سے جڑی مختلف معلومات ایسے انداز میں اکٹھی کیں کہ جس سے یہ تاثر نہ جاتا کہ وہ تفتیش پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔

’کمیٹی نے مطیع اللہ جان کے ٹی وی شوز اور کالموں کا بھی جائزہ لیا۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں مطیع اللہ کچھ ایسے سوالات اٹھا رہے تھے جو براہ راست سیکورٹی ایجنسیوں سے متعلق تھے۔‘

رپورٹ کے مطابق مطیع اللہ نے حملے سے کچھ دن قبل لاپتہ افراد پر بھی شو کیا تھا۔ ’وہ اپنے کالموں میں خفیہ ایجنسیوں کے سیاست میں کردار ہر تنقید کرتے رہے تھے۔‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ابتدائی طور پر حملہ آوروں کی شناخت اور ثبوت اکٹھے کرنا بہت مشکل تھا تاہم بعد میں پولیس کو قائل کیا گیا کہ وہ علاقے کی جیو فینسنگ کرے۔ پولیس حکام نے یقین دہانی کرائی کہ وہ یہ کام دو سے تین ہفتوں میں کر لیں گے۔

پولیس حکام سے معلوم ہوا کہ مطیع اللہ جان پر حملہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ہے۔ ’ایک آعلی پولیس افسر نے کمیٹی کے رکن کو بتایا کہ حملے کے پیچھے ذاتی دشمنی نہیں بلکہ مطیع اللہ جان کا صحافتی کام ہے۔‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی ارکان کی جانب سینئر پولیس حکام کا رویہ اچانک تبدیل ہوا اور انہوں نے جیو فینسنگ رپورٹ پر خاموشی اختیار کر لی۔ کمیٹی ارکان نے وزیر داخلہ احسن اقبال سے ملاقات میں یہ معاملہ اٹھایا تو انہوں نے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی تاہم جیو فینسنگ رپورٹ پھر بھی نہ مل سکی۔

کمیٹی نے ہراساں کیے جانے والے دیگر صحافیوں کے بیانات بھی ریکارڈ کرنے لیے ان سے رابطہ کیا۔ رپورٹ کے مطابق اس دوران حامد میر سے ملنے کیلئے چار نامعلوم افراد نے جیو اسلام آباد کے دفتر میں گھسنے کی کوشش کی ۔

’گارڈ کی جانب سے روکے جانے پر چاروں افراد واپس چلے گئے۔ ان کی گاڑی کے نمبر کے ذریعے معلومات حاصل کرنی کی کوشش کی گئی تو پتہ چلا کہ اس نمبر پر فیصل آباد میں ایک ویسپا اسکوٹر رجسٹرڈ ہے۔‘

رپورٹ کے مطابق کمیٹی کے لیے سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ کمیٹی کو معاشرے کے ہر طبقے کی جانب سے یہ کہا گیا کہ حملے کے پیچھے ایجنسیاں ہو سکتی ہیں ۔ ’تحقیق کے دوران کبھی کسی نے کہا کہ ‘بھائی لوگوں’ کا آپ کیا کر سکتے ہیں، کسی نے ’آبپارہ والوں‘ کا حوالہ دیا، کسی نے دوسری ریاست، اسٹیبلشمنٹ وغیرہ کہا۔‘

کمیٹی نے پولیس، آئی بی اور وزارت داخلہ کے بعد آئی ایس پی آر اور آئی ایس آئی سے رابطہ کر کے حملے کے حوالے سے بات کرنے کی کوشش کی تاہم اس پر پیش رفت نہ ہو سکی۔ ’ایک آعلی افسر نے کہا کہ وہ کمیٹی کی ملاقات کیلئے دی گئی درخواست پر غور کریں گے تاہم پھر مزید جواب نہ مل سکا۔‘

رپورٹ کے نتائج

رپورٹ کے مطابق ’فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی مطیع اللہ جان پر حملے کے ذمہ دار کسی شخص یا ادارے کے خلاف کوئی براہ راست ثبوت حاصل نہ کر سکی لیکن حالات و واقعات سے یہ واضح ہے کہ مطیع اللہ جان کو ہراساں کرنے میں بہت طاقتور لوگ ملوث ہیں۔‘

رپورٹ کے مطابق ان طاقتور لوگوں نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی تفتیش پر اثرانداز ہونے کیلئے خوفزدہ کرنے کے پرانے حربے استعمال کیے۔

رپورٹ کہتی ہے کہ حملہ آور غیر ریاستی عناصر نہیں تھے۔ ’ہمیں یقین ہے کہ یہ کچھ بدمعاش ریاستی کردار ہیں۔ اور صرف ایک مضبوط ریاست ہی اپنی رٹ، ریاست کے اندر موجود ایسے سرکش عناصر کے خلاف قائم کر سکتی ہے۔‘

رپورٹ کے اختتام پر لکھا گیا ہے کہ ریاست کے اندر موجود کئی ریاستیں نہ صرف آزاد میڈیا بلکہ ملک میں قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کے لیے اصل خطرہ بنتی جا رہی ہیں۔

رپورٹ میں دی گئی تجاویز

’آر آئی یو جے اس رپورٹ کو عوامی دستاویز کے طور پر شائع کرے تاکہ صحافیوں کے اندر موجود خود ساختہ متاثرین کی حوصلہ شکنی ہو۔ ایسے متاثرین سے جب رابطہ کر کے کہا گیا کہ وہ بھی تفتیش میں شامل ہونے کیلیے درخواست دیں تو انہوں نے انکار کر دیا۔‘


فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی یہ سمجھتی ہے کہ سیکورٹی اداروں کو اپنا تاثر بہتر بنانے کیلئے معمول کے معاملات کے علاوہ بھی ایسے واقعات پر اپنا موقف اور وضاحت دینے کیلئے سوالات کے جواب دینے چاہئیں ۔


حکومت کو صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے ریگولیٹری نظام مضبوط کرنی کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں میڈیا ہاوسز اور صحافی تنظیموں کو رپورٹرز اور سب ایڈیٹرز کی تربیت کیلئے بھی اقدامات کرنے کا کہا گیا ہے۔

پاکستان ٹوئنٹی فور کے پاس دستیاب معلومات اور دستاویزات کے مطابق فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے سربراہ حامد میر نے دیگر ارکان کے دستخطوں کے ساتھ رپورٹ مکمل کر کے راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس کے صدر مبارک زیب خان کے حوالے کی تاہم انہوں نے تاحال اس رپورٹ کو شائع نہیں کیا اور نہ ہی کسی موقع پر رپورٹ شائع نہ کرنے کی وجوہات بتائیں ۔

پاکستان ٹوئنٹی نے مبارک زیب خان سے ان کا مؤقف جاننے کے لیے متعدد بار رابطہ کیا لیکن انہوں نے جواب نہ دیا ۔ ان کے فون پر پیغام بھی چھوڑا گیا ۔

کمیٹی کے ایک رکن سردار حمید نے پاکستان ٹوئنٹی فور کو بتایا کہ ان کو کبھی کسی نے کمیٹی کے اجلاس کی اطلاع نہیں دی اور وہ اس میں شریک نہیں تھے۔

صحافی مطیع اللہ جان پر حملے کی اس رپورٹ کو شائع کرنے کے لیے احتجاجی مظاہروں اور صحافی تنظمیوں کے اجلاس کے دوران بھی زور دیا جاتا رہا ہے۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے