پاکستان24 متفرق خبریں

ویڈیو کہاں سے آئی؟

Reading Time: 4 minutes خبر کہاں سے آئی؟ نشر کرنے کا فیصلہ کس کا تھا؟ دباؤ کس کا تھا؟ معافی مانگنے پر کیا بحث ہوئی؟ خاتون طیبہ فاروق نیوز ون کے دفتر کیسے پہنچی۔ یہ سب جانیے اس رپورٹ میں

مئی 24, 2019 4 min

ویڈیو کہاں سے آئی؟

Reading Time: 4 minutes

پاکستان میں احتساب کے قومی ادارے کے سربراہ جاوید اقبال کے سیکس سکینڈل کی مبینہ ویڈیو نجی ٹی وی چینل پر نشر کیے جانے کے ایک گھنٹہ بعد ہٹا کر معذرت کر لی گئی مگر لوگ پوچھتے پھر رہے ہیں کہ ویڈیو کہاں سے آئی۔

ہاکستان ٹوئنٹی فور نے اس ویڈیو کو نشر کرنے والے مختلف کرداروں سے بات کر کے کہانی جاننے کی کوشش کی تاہم کوئی بھی ذمہ دار شخص آن ریکارڈ کچھ بھی بتانے کو تیار نہیں۔

پاکستان ٹوئنٹی فور کی تحقیق کے مطابق چیئرمین نیب کی ویڈیو بنانے والی خاتون طیبہ فاروق کافی عرصے سے یہ ویڈیو میڈیا کے ذریعے سامنے لانے کی کوشش میں تھیں۔

نیوز ون ٹی وی کے لاہور دفتر میں طیبہ فاروق نے ایک اینکر تک رسائی حاصل کی اور ان سے ویڈیو اور چیئرمین نیب کی جانب سے دباؤ ڈالے جانے کے بارے میں بات کی۔

اینکر نے پہلے ویڈیو اور آڈیو دیکھنے اور سننے کے لیے فراہم کرنے کے لیے کہا جس کے بعد اس کو خبر کے طور پر نشر کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیے جانے سے آگاہ کیا۔

چیئرمین نیب ویڈیو میں خاتون سے گلے مل رہے ہیں

طیبہ فاروق کی جانب سے اینکر کو ویڈیو فراہم کی گئی تو اینکر اس کو نشر نہ کر سکے اور چینل کے مالک سے اسلام آباد میں ملاقات کے لیے پہنچ گئے۔

چینل کے مالک کے قریبی ذرائع کا دعوی ہے کہ وہ ویڈیو پہلے وزیراعظم عمران خان کو دکھانا چاہتے تھے جو نیب کی کارکردگی اور ادارے کے سربراہ جاوید اقبال سے نالاں ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ نیوز ون کے مالک ویڈیو کے بارے میں نیب کے چیئرمین جاوید اقبال سے بھی بات کرنا چاہتے تھے تاہم نیوز ڈائریکٹر سے مشاورت کی گئی تو انہوں نے ایسا کرنے سے روک دیا۔

چینل کے ڈائریکٹر کے قریبی افراد کا دعوی ہے کہ ویڈیو کو صرف ایک خاص خبر کے طور پر نشر کرنے کا پیشہ ورانہ فیصلہ کیا گیا اور اس کے لیے نیوز ون کے مالک سے دو گھنٹے بحث ہوتی رہی۔

ذرائع کا دعوی ہے کہ جب چینل کے مالک کو ویڈیو کو بطور خبر نشر کرنے پر قائل کیا گیا تو ان سے آنے والے ممکنہ دباؤ کے بارے میں بھی بات کی گئی۔

جمعرات کی شام اسلام آباد میں سٹاک ایکسچینج ٹاور میں واقع نیوز ون کے دفتر کے باہر سفید رنگ کی کار پارک کرنے والی خاتون کی شناخت بعد ازاں طیبہ فاروق کے طور پر ہو سکی۔

بلڈنگ کے سی سی ٹی وی مانیٹرنگ کرنے والے ایک ذریعے کے مطابق گارڈز نے خاتون کو کار سائیڈ پارکنگ میں لے کر جانے کے لیے کہا۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ خاتون کے ساتھ ایک پندرہ برس کا لڑکا بھی تھا۔

رات سوا نو بجے چیئرمین نیب کے مبینہ سیکس سکینڈل کی بریکنگ نیوز چلانے والے چینل کے سٹوڈیو میں ویڈیو بنانے والی خاتون طیبہ فاروق لائیو بیپر دینے کی تیاری میں تھیں جب چینل کے مالک نے فون کر کے کہا کہ خبر کو روک دیا جائے۔

ذرائع کے مطابق چینل کے مالک اپنے ساتھ ”راولپنڈی کا ہرکارہ“ سمجھے جانے والے ایک نیوز ایجنسی کے مالک کو لے کر دفتر پہنچے اور خبر کی تردید نشر کرنے کے لیے کہا۔

ذرائع کا دعوی ہے کہ نیوز ون کے اسلام آباد دفتر میں مالک اور ڈائریکٹر کے درمیان خبر کی تردید اور معافی نشر کرنے پر بحث ہوئی اور اونچی آوازوں میں کی گئی گفتگو دفتر سے باہر موجود افراد نے بھی سنی۔

بتایا گیا ہے کہ ڈائریکٹر نیوز نے چینل کے مالک سے کہا کہ خبر مشاورت اور اجازت سے چلائی گئی اگر اب معافی مانگنی ہے تو وہ مستعفی ہونے کے لیے تیار ہیں۔

چینل کے مالک کے قریب سمجھے جانے والے راولپنڈی کے ہرکارے نے گذشتہ رات ایک نجی محفل میں بتایا کہ ”خبر اصل میڈیا منیجر نے رکوائی“۔

نیوز ون پر خبر نشر ہونے کے بعد دنیا ٹی وی اور ایکسپریس نیوز نے اپنی خاص خبروں میں بتایا کہ ویڈیو سیکس سکینڈل نشر کرنے والے چینل کا مالک وزیراعظم کا معاون ہے۔

ذرائع کا دعوی ہے کہ وفاقی حکومت پر بھی میڈیا منیجر کے دباؤ کی اطلاعات سامنے آئیں جس کے بعد دنیا نیوز پر ٹکرز چلائے گئے کہ ویڈیو نشر کرنے والے چینل کے مالک کو وزیراعظم کی جانب سے مشیر کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا ہے۔

پاکستان ٹوئنٹی فور نے چینل کے ڈائریکٹر سے رابطہ کر کے مؤقف جاننے کی کوشش کی تاہم انہوں نے کہا کہ ”مجھے جو کچھ کہنا تھا آن ایئر کہہ چکا۔ معذرت نشر کیے جانے کا میرا آڈیو بیپر سن لیں وہی مؤقف ہے۔“

چینل کے مالک طاہر اے خان، خاتون طیبہ فاروق اور نیب کے چیئرمین جاوید اقبال سے رابطہ کرنے کی کوشش جاری ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے