کالم

"غدار” سے "لاپتہ افراد” تک

مئی 31, 2019 3 min

"غدار” سے "لاپتہ افراد” تک

Reading Time: 3 minutes

ہمیشہ مظلوم کے حمایتی اور ظالم کے مخالف بن کر رہو (امام علی علیہ السلام)

دنیا بھر میں ماہ رمضان کا آخری جمعہ یوم القدس یعنی مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے حق اور مسجد اقصی پر صیہونیوں کے ناجائز قبضہ کے خلاف منایا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے مظلوموں ،حریت پسندوں کے لئے یہ دن استعماری طاقتوں اور ظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی علامت بن گیا ہے۔

یہ دن ۔ رنگ ،نسل، علاقہ،زبان،مذہب سے ماورا ہو کر صرف اور صرف مظلوموں کی آواز بنتا ہے۔


کہتے ہیں طاقت حاصل کرنے کا مقصد ہی منفی ہوتا ہے کیونکہ انسانوں کو تو اعلی اخلاق سے تسخیر کیا جا سکتا ہے۔
ہمیشہ سے طاقتور کے ہاتھوں انسانوں کا استحصال ہی ہوا ہے۔ فلسطین میں دنیا بھر کے یہودیوں کا اکٹھ، پھراسرائیل کا غیر قانونی قیام۔ مسلمانوں کو بے گھر کرنے اور فلسطین پر قبضہ کر کے یروشلم کو اپنانا مذہبی خطوط پر استوار ہوا۔

شیخ احمد یاسین، سنی مزاحمتی تنظیم حماس کے رہنما کہتے ہیں ”جب ہم چھوٹے تھے تو سمجھتے تھے کہ یہود غزہ پر قابض ہیں، مگر جب بڑے ہوئے تو پتا چلا کہ یہود پورے عرب پر قابض ہیں، سوائے غزہ کے…!!!

قبلہ اول پھر آج بھی اسرائیل کا قبضہ ہے اور مسلمان مسجدوں میں قبضہ واگزار کرانے کی دعائیں فرما رہے ہیں۔
خدا اس کو قوم کی حالت نہیں بدلتا نہ ہو خیال جس کو خود اپنی حالت بدلنے کا ۔ علامہ اقبال نے کچھ ایسا ہی لکھا تھا۔
ہلاکو خان ،نپولین ،ہٹلر،نازی ،سویت یونین ، امریکہ سب ہی طاقت کی غرض سے ملکوں پر جھپٹے اور جاتے ہوئے آزادی ساتھ لے گئے ۔
نکال لایا ہوں ایک پنجرے سے اک پرندہ
اب اس پرندے کے دل سے پنجرہ نکالنا ہے
عمیر نجمی
غلام قوموں کی حالت اس شعر سے میل کھاتی ہے۔


برصغیر پاک و ہند کے باسی پہلے انگریز کے غلام رہے ۔ آزادی ملی تو فوج نے دبوچ لیا ۔ کم از کم اپنے ملک کے ساتھ تو یہی ہوا۔

3 بار مارشل لاء لگا، دہائیوں پر محیط حکومت کی عوام پر، اور پھر ایک لفظ متعارف ہوا "غدار” اتنا دہرایا گیا یہ لفظ کہ بھٹو سے لے کر نواب اکبر بگٹی تک سب اس کی زد میں آگئے اور جان سے گئے۔
یہ سب وہ لوگ تھے جو ملک میں ہی رہے جان دیدی لیکن وطن سے بھاگے نہیں۔ پھر کچھ کارکنان نے سر اٹھایا، آواز بلند کی کہ یہ ظلم ہے سراسر نا انصافی یے تو ان کو ایک اور نام دیا گیا "مسنگ پرسن”۔

اختر مینگل صاحب کی قومی اسمبلی اجلاس میں ایک تقریر رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے ۔ کہہ رہے تھے بلوچوں کی یہ روایات ہے کہ اگر کسی لڑکی کی منگنی ہو جائے اور اس کا منگیتر اٹھالیا جائے تو وہ اس کی واپسی یا موت کی خبر تک اس کا انتظار کرتی یے۔ اپنے جوانوں کی یاد میں کئی یعقوب ہیں جو اپنی آنکھیں سفید کر بیٹھے ہیں۔ کئی مائیں ہیں جو اپنے بچوں کی شادی کی خواب سجائے آنکھیں ہمیشہ کیلئے بند کر گئی ہیں۔ کراچی میں بھی پچھلے دنوں ایسے ہی جوانوں کےاہل خانہ نے احتجاج کیا۔


آج کل پی ٹی ایم کے کارکنان اور محسن داوڑ، علی وزیر۔ دونوں الفاظ پر پورے اتر رے ہیں ” غدار اور لاپتہ افراد” ۔ کالی بھیڑیں جہاں بھی ہوں نقصان عوام کا ہوتا یے۔ طالبان سے آزاد کرائے گئے علاقوں کو آیک بار پھر بدامنی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے ۔ طاقت اور ایجنڈا ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں اور لہو لہان ہو رہے ہیں عوام۔

طاقت و حکومت کے نشہ میں چور دو گروہوں سے الگ، ہم عوام مظلوموں کیساتھ کھڑے ہیں وہ چاہے جو بھی ہو ۔ ہمیں اپنی فوج کی صلاحیتوں پر بھی فخر یے لیکن بات یہ یے کہ عوام کی جان و مال کے تحفظ کو ملحوظ خاطر رکھا جائے ۔ نہ کہ ڈی ایچ اے بنا کر عوام کی جائیداد پر قبضہ کیا جائے ، نہ جوانوں کو ماورائے قانون اٹھایا جائے، بس سیاست کا لبادہ اوڑھے غدار اور وردی میں چھپے عیار کو سولی پر چڑھایا جائے تاکہ عوام زندہ رہ سکیں ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے