کالم

ڈاکٹر اور قصائی

جون 18, 2019 2 min

ڈاکٹر اور قصائی

Reading Time: 2 minutes

یہ منظر ننکانہ صاحب DHQ ہسپتال کا ہے۔

ایک گروہ نے دوسرے گروہ پر ہسپتال کی ایمرجنسی میں اندھا دھند فائرنگ کی جس سے سات ہلاکتیں ہوئیں۔ اللہ کے فضل سے ڈاکٹر و عملہ فائرنگ کی زد میں نہیں آئے۔

تصویر میں آپ کو ایک “قصائی” نظر آئے گا جو خون کے تالاب میں پڑے ایک انسانی جسم کو ہلا کر دیکھ رہا ہے کہ اگر اس میں جان باقی ہے تو اس کو بچایا جائے۔ ویڈیو میں باقی “قصائی” بھی موقع پر موجود دیکھے جا سکتے ہیں جبکہ یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ بندوقوں والے جو تھوڑی دیر پہلے ایک ہی ہلے میں سات بندے مار گئے تھے وہ، یا ان کا مخالف گروہ، دوبارہ بھی موڈ بننے پر آ کے فائر کھول سکتے ہیں۔

ان نوجوان “قصائیوں” کے لئے بھی گھر میں کوئی انتظار کر رہا ہے، مگر تنخواہ لے کر حلال کرنے کا حوصلہ شاید اب ان قصائیوں کے علاوہ تھوڑے ہی اور پیشوں سے منسلک پاکستانیوں میں رہ گیا ہے۔

اس ہسپتال کی سیکیورٹی سے آپ اندازہ لگا لیں کہ یہ “قصائی” کس طرح کے ماحول میں کام کرتے ہیں۔ میں خود جس وارڈ میں بطور “قصائی” کام کرتا ہوں وہاں بھی کوئی سیکیورٹی کا بندوبست نہیں ہے (بقیہ نوے فیصد وارڈوں کی طرح)۔ کینسر کے اسّی سالہ مریض کو آخری اسٹیج میں اسپتال لانے والے کسی دور کے نوجوان رشتے دار کا ادھ موئے بابا جی کو گھوڑے جیسا صحت مند بنانے کا مطالبہ پورا نہ ہو تو امکان بڑا روشن ہوتا ہے کہ اس کا خون جوش مارے اور وہ اپنے ساتھ تین چار لوگوں کو ملا کر کھلم کھلا اسلحہ لہراتا ہوا میرے ساتھ بھی یہی کچھ با اسانی کر ڈالے جو ویڈیو میں اس مہذب قوم کے افراد نے ایک دوسرے کے ساتھ کیا ہوا ہے۔

اور حالات بتاتے ہیں کہ ہماری پُرامن و تعلیم یافتہ قوم تشدد کرنے سے چُوکتی بھی نہیں! یہ تو اب معمول بن چکا ہے کہ مریضوں کے لواحقین جب جی چاہتا ہے ڈاکٹروں اور عملے کو دھو دھو کر چلے جاتے ہیں۔ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے جیسے آپ شام، فلسطین یا کشمیر میں ہیں اور کسی بھی لمحے کوئی بھی آپ کی عزت یا جان کو بڑی آسانی سے نقصان پہنچا سکتا ہے۔

جو جونیئر میری پوسٹ پڑھ رہے ہیں ان کو برادرانہ مشورہ ہے کہ جس جس کے پاس وسائل ہیں وہ امریکہ، برطانیہ، یورپ، یا خلیجی ممالک کے امتحان پاس کر کر کے یہاں سے نکلتا جائے۔ یہ سارے امتحان پاکستانی FCPS کے امتحان سے کسی طور بھی مشکل نہیں بلکہ نسبتاً آسان ہیں۔ عزت کی روزی کمائیں، یہاں کے مقابلے ہزار گنا بہتر تنخواہ و مراعات لیں، پبلک ہالی ڈیز پر مفت میں کام نہیں بلکہ اوور ٹائم کی اضافی معقول کمپنسیشن، ڈیوٹی آرز بھی فِکس، قصائی بھی نہیں کہلوانا پڑے گا، ہر دوسرے دن سڑکوں پے جائز مطالبات کے لیے ذلیل بھی نہیں ہونا پڑے گا، اچھا لائف اسٹائل بھی ہو گا، صاف ہوا اور خالص، ملاوٹ سے پاک غذا میسر ہو گی، بچوں کے لیے بہترین تعلیم کی سہولیات، اور کام کی جگہ پے ہر وقت پِٹائی یا بدتمیزی کا خدشہ بھی نہیں! اور یہاں سے نکل کر جو ہم جیسے بدنصیب پیچھے رہ جائیں ان کے حق میں بھی دعا کریں کہ اللہ ان کے لیے بھی سبب پیدا فرمائے۔

ڈاکٹر عزیر سرویا

-Dr. Uzair Saroya

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے